امریکہ اور پاکستان کے تعلقات دیرپا کیسے ہوسکتے ہیں؟

پاکستان کے دورے پر موجود امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کی منتظمہ سمانتھا پاور نے بھی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد میں مزید دو کروڑ ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔

امریکہ اور پاکستان میں تعاون اور تعلقات میں بہتری کے لیے حال ہی میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ واشنگٹن نے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے لیے پانچ کروڑ ڈالر سےزائد کی امداد کا اعلان کیا ہے۔اسلام آباد کے ایف-16 طیاروں کی مرمت کے لیے 45 کروڑ ڈالر کے معاہدے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔

مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات میں تازہ ترین گراوٹ اس وقت دیکھنے میں آئی، جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے یوکرین پر حملے کے وقت روس کا دورہ کیا اور بعد میں انہوں نے اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی میں امریکہ کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

امریکہ کا محکمۂ خارجہ ان الزامات کی بارہا تردید کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔

واشنگٹن اور اسلام آباد امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد قریبی حلیف رہے، لیکن اس دوران بھی دونوں ملکوں کے اسٹرٹیجک تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے۔

مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن کی موجودگی اور امریکہ کی کارروائی میں ہلاکت نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی میں مزید اضافہ کیا۔ بعدازاں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں افغانستان میں پاکستان پر ڈبل گیم کے الزامات عائد کرتے ہوئے اس کی امداد بھی بند کر دی گئی۔

افغانستان سے امریکہ کی فوج کے گزشتہ برس انخلا کے بعد بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری فوری طور پر ختم ہونے کا امکان نہیں کیوں کہ واشنگٹن اور اسلام آباد پہلے کی طرح اب ایک دوسرے پر سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں انحصار نہیں کریں گے۔

دوسری جانب کئی مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد صورتِ حال مزید خراب ہوئی ہے جب کہ ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی اور امریکہ کی کارروائی میں ہلاکت، داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان کے لیے بھی تشویش کا باعث بن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملات امریکہ اور پاکستان کو ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

ویو 360 | سات عشروں بعد، پاک امریکہ تعلقات آج کہاں کھڑے ہیں؟ | بدھ، 17 اگست 2022 کا پروگرام

دہشت گردی اور پاکستان و افغانستان سے متعلق اُمور کے ماہر اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں محقق ڈاکٹر جاوید کلہوڑو کہتے ہیں کہ اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور پاکستان پھر سے ایک دوسرے کے قریب ہو کر افغانستان سے دہشت گردی کے چیلنجز کا مقابلہ کریں گے؟

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے یہ بہت ہی اہم وقت ہے کہ وہ سلامتی کے لیے اقدامات پر اور افغانستان کی صورتِ حال پر توجہ مرکوز رکھے کیوں کہ داعش کے مسلسل حملے ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کو شدید سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔"

اُن کا کہنا تھا کہ آنے والے مہینوں میں اگر داعش افغانستان کے مختلف مقامات پر اپنی اجارہ داری قائم کر لیتی ہے تو افغانستان ایک بار پھر ماضی کی طرح حصوں میں بٹ جائے گا۔ ایسی صورت میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا اور امریکہ کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں کیوں کہ دہشت گرد گروہ اپنی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔

جاوید کلہوڑو کہتے ہیں کہ القاعدہ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہے لیکن داعش کا دائرہ کار بہت وسیع ہے، وہ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں مقامی انتہا پسند گروپوں اور مقامی وسائل کو استعمال کرتی ہے۔ اس نے جنوبی ایشیا میں کارروائیوں کے لیے شاخیں بنا رکھی ہیں۔ لہذٰا امریکہ اور پاکستان کے لیے یہ خطرات مشترکہ ہیں۔

جاوید کلہوڑو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان طالبان کو بھی بطور حلیف شامل کر لیا جائے، اس کے باوجود کہ افغان طالبان کے اندر بھی بعض پالیسی اُمور پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔

SEE ALSO: امریکہ:پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی مرمت کے لیے 45 کروڑ ڈالر کے معاہدے کی منظوری

واشنگٹن میں دی مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں افغانستان اور پاکستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ افغانستان کے چیلنجز ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کو اپنے تعلقات کو بہتر کرنا چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف تعاون کو مزید بڑھانا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایف 16 طیاروں کے حوالے سے معاہدے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب پاکستان اور امریکہ تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔

اُن کے بقول دو طرفہ تعلقات کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیانات سے ٹھیس پہنچی البتہ یہ تاثر بھی درست نہیں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت امریکہ کے اشاروں پر چل رہی ہے۔

وائن بام کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں امریکہ چاہے گا کہ وہ پاکستان کی فوج کے ساتھ اپنے تعلقات کو آگے بڑھائے اور انٹیلی جنس کے شعبے میں تعاون بڑھے۔

اس سوال پر کہ کیا پاکستان نےامریکہ کی افغانستان میں ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے میں مدد کی؟ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ابھی تک کہی جانے والی تمام باتیں محض مفروضے ہیں، کیوں کہ اس بارے میں سرکاری سطح پر کچھ بھی نہیں کہا گیا۔

جہاں تک افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا تعلق ہے تو ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ اسے ایک بڑے خطرے کے طور پر نہیں دیکھتا، اگر افغانستان میں حالات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ داعش مضبوط ہو جاتی ہے اور پاکستان کے لیے سنگین خطرہ بن جاتی ہے تو امریکہ کبھی بھی یہ نہیں دیکھنا چاہے گا کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو جائے۔

SEE ALSO: پاکستان امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ ضرور، لیکن ایک دوسرے کی ضرورت کا احساس بھی ہے، ماہرین

لیکن کیا تعلقات استوار کرنے کے 70 برس بعد بھی امریکہ اور پاکستان کا تعاون سلامتی امور کے ارد گرد رہے گا؟ پاکستانی رہنما اور سفارت کار اکثر پاکستان کی خطے اور دنیا میں اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کو ماضی کے سیکیورٹی پر مبنی تعلقات سے آگے بڑھ کر وسیع البنیاد روابط بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔

حال ہی میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے اس سلسلے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی امریکہ کو گزشتہ سال کی برآمدات نو ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں۔ انہوں نے ایک بیان میں اور پھر وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان امریکہ کی طرف سے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے امداد کی قدرکرتا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب سے شدید متاثرہ پاکستان کے لیے امریکہ کی زیادہ سے زیادہ امداد سے دونوں ملکوں کے تعلقا ت میں مزید بہتری آئے گی۔

پاکستان کے دورے پر موجود امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کی منتظمہ سمانتھا پاور نے بھی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد میں مزید دو کروڑ ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ نے پاکستان کے لیے تین کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا۔

امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کی ایک رپورٹ کے مطابق سمانتھا پاور نے دورے کے دوران کہا کہ افغان جنگ کے دوران پاکستان کے عوام میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ امریکہ، پاکستان کو صرف افغانستان کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ لیکن اُن کے بقول اب اُمید ہے کہ امریکی تعاون دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا۔


سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے منسلک ماہر ڈینئل ایف رینڈ کہتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں وسعت دینا واشنگٹن کے مفاد میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگلے 10 برس میں امریکہ کو سلامتی کے امورمیں تعاون سے آگے نکل کر دوسرے شعبوں میں بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کی طرز پر پاکستان سے تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں۔

ڈینئل ایف رینڈ کہتے ہیں کہ باہمی اعتماد میں کمی کی موجودہ فضا میں تعلقات کی بہتری کے لیے امریکہ اور پاکستان دونوں کو اقدامات اٹھانا ہوں گے جن میں امریکہ کا پاکستان کے ساتھ تجارت، توانائی، ماحولیات، خواتین اور خواتین کے حقوق، تعلیم، ٹیکنالوجی اور صحت جیسے شعبوں میں تعاون شامل ہو۔

دوسری طرف پاکستان کو جیو اکنامکس، اقتصادی اصلاحات، ٹیکسوں کی وصولی پر توجہ دنیا ہو گی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے پر کشش ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی۔

لیکن کیا دونوں ملکوں کے لیے بڑے سیکیورٹی اور جیو اسٹرٹیجک مسائل سے دوچار خطے میں اپنے تعلقات کو وسیع بنیادوں پر استوار کرنا آسان ہو گا؟

واشنگٹن میں یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے وابستہ ایشیا پروگرام کے سینئر ماہر ڈاکٹر اسفندیار میر کہتے ہیں کہ افغانستان میں داعش ابھی اتنی مضبوط نہیں کہ فوراً امریکہ اور پاکستان کو اس کے خلاف تعاون کرنے کے معاملے پراثر اندا ہو سکے۔ دوسری طرف امریکہ اور پاکستان میں افغانستان کی صورت حال کو بہتر کرنےکےمعاملے پر ابھی بھی اختلافات موجود ہیں۔

جہاں تک ایف 16 طیاروں کے لیےسازوسامان کی امریکی منظوری کی بات ہو تو وہ کہتے ہیں کہ یہ طیاروں کی مرمت کا منصوبہ ہے اور محدود تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایف 16 طیاروں کے اس سلسلے میں تعاون باہمی تعلقات کو برقرار رکھنے کا ایک اہم اشارہ ہے۔

ڈاکٹراسفند یار میر کہتے ہیں کہ اختلافات اور حالات کے باوجود بعض امریکی پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ ملائیشیا اور ویت نام جیسےملکوں کے ساتھ تعلقات کی طرز پر وسیع تعلقات قائم کرنا چاہیے اور محض سیکیورٹی کے معاملات تک تعاون محدود نہیں ہونا چاہیے۔