پاکستان کے لیے امریکی امداد کا مستقبل

پاکستان کے لیے امریکی امداد کا مستقبل

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں پاکستان کے بارے میں مختلف آراء کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ کچھ ماہرین خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد بند کردی جائے اور کچھ کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا دونو ں ملکوں کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔

امریکی ریاست میری لینڈ کے ڈیموکریٹک رکن کانگریس جان ساربینس کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں کو حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اب جب دوبارہ اس موضوع پر بات ہوگی تو وہ بہت مشکل ثابت ہو سکتی ہے مگر میں وقت سے پہلے اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرنا چاہتا ۔ میرے خیال میں اس موضوع پر بہت سے پہلووں سے غور کیا جائے گا ۔ میں امیدکرتا ہوں کہ آخر کار جو نتائج سامنے آئیں وہ بہتر سوچ اور غور وفکر کے بعد سامنے آئیں ۔

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے کے تجزیہ کار معید یوسف جو حال ہی میں پاکستان کا دورہ کر کے آئے ہیں کہتے ہیں کہ ماضی میں جب کبھی بھی وہ پاکستان گئے تو وہاں جن پہلوں پر بات چیت ہوتی تھی ، وہ امریکہ سے کافی مختلف ہوتی تھی مگر اب صورت حال کچھ اور ہے۔

ان کا کہناتھا کہ اس مرتبہ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ جو سوال یہاں اٹھایے جا رہے ہیں جو بات چیت یہاں ہو رہی تھی وہی سوالات میں نے پاکستان میں سنے ، وہی تنقید میں نے پاکستان میں سنی، لوگ جوابات کی تلاش میں ہیں۔ ایک انکوئری مانگی جا رہی ہے، وہ تمام باتیں جو میں یہاں سن رہا ہوں وہی میں نے وہاں سنی اور یہ ایک بہت غیر معمولی وقت ہے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جب ایسا ہو۔

کانگریس مین ساربینس کے مطابق ہر ملک کے دوسرے ملک سے تعلقات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اور یہ فیصلہ کہ معاملات کو کیسے سنبھالنا ہے اس کا انحصار اعتدال سے کام لینے پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ان معاملات کو حل کرنے کے لئے ہمیں جذباتی رد عمل سے دور رہنے کی ضرورت ہے اوردانش مندی سے کام لیتے ہوئے دیکھنا چاہئے کہ یہ مسئلے اصل میں ہیں کیا۔۔ اور پھر ان کا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

حال ہی میں معید یوسف نے امریکی کانگریس کی ایک سماعت کے دوران پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری کے سوال پر اپنی گواہی بھی پیش کی اوراس پہلو پر زور دیا کہ دونو ں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میرا نقطہ نظر اس پر بڑا واضح ہے کہ اگر پاکستان سے تعلّق ٹوٹا تو یہ امریکہ اور پاکستان کے لئے بہت نقصان دہ ہوگا اور جو امریکی امداد ہے وہ ایک طرف تو اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو تبدیل کرسکے لیکن دوسری جانب امریکی مدد روکنا ایسا ہی ہوگا کہ آپ نے تعلّق ختم کرنے کا ایک اشارہ دے دیا ہے تو میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی ہوگی اگر امریکہ کی جانب سے اگر کوئی ایسا قدم اٹھایا گیا۔

دوسری جانب رکن کانگریس ساربینس کا کہنا ہے کہ صدر اوباما یہ بات کہہ چکے ہیں کہ دونو ں ملکوں کے درمیان بن لادن کےحوالے سے کچھ معاملات حل طلب ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

صدر اباما کچھ دن پہلے یہ کہہ چکےہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف معاملات پر اختلاف رائے موجود ہے جو آنے والے دنوں میں بڑھ بھی سکتا ہے لیکن یہی وہ معاملات ہیں جن پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مل جل کر تعمیری انداز سے معاملات کو آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جائے ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی امداد بند ہونے کے خدشات مکمل طور پر درست نہیں البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ کیری لوگر بل کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔

ساریینس کہتے ہیں کہ میرے نزدیک ایڈ رکے گی نہیں یہ فیصلہ کہ پاکستان کی ایڈ مکمّل طور پر بند کر دی جائے ، میرے نزدیک ایسا نہیں ہوگا ہاں یہ ضرور میں کہوں گا کہ کیری لوگر بل کا جو فارمٹ ہے جس میں سویلین ایڈ پر کوئی پابندیاں نہیں ہیں وہ و شاید تنقید کا نشانہ بنے اور کیری لوگر بل اپنی مدّت شاید پوری نہ کرسکے تو پھر کوئی اور طریقہ نکالا جائے گا جس سے امداد دی جائے لیکن واشنگٹن میں سب کو پاکستان کی اہمیت واضح طور پر معلوم ہے ۔

http://www.youtube.com/embed/OP6EzYAI8D4

کانگریس مین ساربینس کا کہنا ہے کہ بن لادن کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی ہے اور پاکستان اور امریکہ نے ابھی ساتھ مل کر اور بہت سے کام کرنے ہیں۔ ہمیں ابھی دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے پر توجہ دینی ہوگی ، یہ خطرہ ابھی ختم نہیں ہوا ۔ پاکستان اور امریکہ کے سامنے ابھی ایسے کئی مواقع آسکتے ہیں ، جن میں دونوں ملکوں کو مشترکہ طور پران خطروں سے نمٹنے کے لئے کام کرنا ہوگا ۔

معید یوسف کے مطابق بعض امریکی اراکین کانگریس امداد کے حوالے سے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ جوڑنے کی تجویز پیش کر رہے ہیں ، جس کا مطلب ہوگا کہ امریکہ کی توجہ پاکستان پر سے 2014ءتک ختم ہوسکتی ہے، اور اگر امداد دینا پاکستان کی فلاح کے لئے ہے توپھر اسے روکنا نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ امریکی امداد صرف فوج کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ترقیاتی کاموں کے لئے بھی ہے ۔

واشنگٹن میں کئی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام خود دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سلامتی ، بقا اور ترقی پاکستانیوں کے اپنے ہاتھ میں ہے اور یہ خواب اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک پاکستانی عوام خود اپنی حکومت اور اداروں کو جواب دہ بنا کر اپنے ملک کا مستقبل محفوظ نہیں کرتے ۔