دنیا بھر میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ خوف اور پریشانی کا سبب بن رہا ہے. لیکن، سوشل میڈیا کے جگت باز کسی صورت باز آںے کو تیار نہیں۔
وائرس کے جنم دن سے اب تک مسلسل لطیفے گھڑے جا رہے ہیں، طنز کے تیروں کی برسات ہو رہی ہے اور جملے چست کیے جا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے اس سلسلے کو نیا رخ دے کر مہمیز کیا ہے۔ شاعر بھی کسی سے پیچھے نہیں جو صورت حالات پر شعر سنا رہے ہیں اور داد پرواز تخیل پا رہے ہیں۔
رکھا نہ کرونا نے کسی اک کا بھرم بھی
مے خانہ بھی خالی ہے، کلیسا بھی، حرم بھی
ایک صاحب نے اچھا شکوہ کیا:
'کھایا پیا چین نے، ہاتھ پوری دنیا دھو رہی ہے'۔
غالباً کسی کمپیوٹر انجینئر نے سب سے پہلے خدا کو اس جانب متوجہ کیا تھا:
ڈئیر گاڈ، پلیز ان انسٹال 2020 اینڈ ری انسٹال اٹ،
اٹ ہیز اے وائرس'۔
یعنی، اے خدائے بزرگ و برتر، اے دو جہاں کے مالک، اے پالن ہار، اس سال کو اپنے ڈیسک ٹاپ کی ہارڈ ڈسک سے ڈیلیٹ کرکے دوبارہ چالو کر۔ اس میں وائرس گھس آیا ہے۔ یہ سارا کام خراب کردے گا۔ پوری ہارڈ ڈسک، گویا کے یہ زمین تباہ ہوجائے گی۔ پتا نہیں کہ اینٹی وائرس بننے میں کتنا وقت لگے گا۔
لاک ڈاؤن ہوا تو سب کو الطاف حسین کی یاد آئی۔ کسی نے کہا کہ حکومت کی بار بار ہدایت کے باوجود کراچی بند نہیں ہو رہا۔ بھائی کا فون کھلا ہوتا تو پانچ منٹ میں بند کرادیتے۔
کسی نے الطاف حسین کی تصویر لگائی اور لکھا، پروموٹنگ ورک فرام ہوم سنس 1992 گویا یاد دلایا کہ وہ سنہ 1992 سے دور گھر میں بیٹھ کر خدمات انجام دے رہے تھے۔
میمز یعنی جگتیں لگائی جارہی ہوں تو سندھ کے محترم وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو کون بھول سکتا ہے۔ کم بخت جگت باز ہر اچھے برے وقت میں ان کا نام لے کر لطیفے سناتے رہتے ہیں۔
ایک ستم ظریف نے ان کی تصویر کے ساتھ لکھا: 'کرونا وائرس اگر تافتان سے پھیل رہا ہے تو لوگوں کو چاہیے کہ شیرمال کھائیں'۔
دوسرے نے تجویز دی: 'سکول بند نہ کرو، بس روزانہ صبح گھنٹی مت بجایا کرو۔ کرونا کو کیا پتا کہ سکول کھلا ہے یا بند ہے'۔
جملے چپکانے والے پرانی تصویریں ڈھونڈ کر نئے فقرے کس رہے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ ڈوبی تو کسی نے ایک ننھے بچے کا فوٹو چھاپا جو لباس سے بے نیاز سڑک پر کہیں جا رہا تھا۔ ساتھ کیپشن لکھا: 'اسٹاک مارکیٹ سے گھر جاتے ہوئے'۔
ایک صاحب کو وہ شخص یاد آیا جس کے کان غیر معمولی طور پر لمبے ہیں۔ انھوں نے لکھا: 'چار دن گھر میں بند ہو کر بیوی کی باتیں سننے کے بعد'۔
کسی فلم بین نے بولی ووڈ کے ولن امرش پوری کی خوفناک تصویر لگائی اور لکھا: 'بیوٹی پارلر بند ہونے سے خواتین کا کیا حال ہوگیا!'
لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہے ہیں۔ اس عالم میں بھی شاہکار جملے تخلیق کیے جارہے ہیں:
'جلدی سے سو جاؤ، صبح اٹھ کر آرام بھی کرنا ہے'۔
'گھر ٹرین جیسا لگنے لگا ہے، واش روم جاؤ اور پھر واپس آکر سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔
باہر نکلو تو کرونا، گھر میں رہو تو یہ کرو نا، وہ کرو نا'۔
کئی لوگوں کو فرصت ملی تو انھوں نے خوب تحقیق کی اور سوشل میڈیا کے دوستوں کو اس میں شریک بھی کیا:
پنکھے کے پر میں نو اسکرو ہوتے ہیں
ٹک بسکٹ میں 31 سوراخ ہوتے ہیں
فل ٹونٹی کھول کر لوٹا بھرنے میں 12 سیکنڈ لگتے ہیں
پنکھا آف کرو تو اسے رکنے میں ایک منٹ پانچ سیکنڈ لگتے ہیں
بیڈروم سے ڈائننگ روم تک کا فاصلہ 25 قدم ہے
دائیں طرف لیٹ کر سونے سے نیند جلدی آتی ہے
لاک ڈاؤن میں گھر سے نکلنے پر پابندی ہے۔ لیکن لوگوں کو اشیائے ضرورت حاصل کرنے کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔ پولیس سے ملاقات ہوجائے تو وہ خوب خاطر تواضع کرتی ہے۔ کوئی اس مہمان نوازی سے مستفید ہوکر لوٹا تو یہ شعر ساتھ لایا:
'ایک ہی صف میں مرغا بن گئے محمود و ایاز
نہ کوئی دہی لاسکا، نہ کوئی آلو پیاز'
جن دوستوں کو ستاروں کا حال جاننے کا شوق ہے، ان کے لیے ایک ستارہ شناس نے ہفتے نہیں، پورے مہینے کا حال لکھ دیا ہے:
برج اسد: گھر پر رہیں گے
برج سنبلہ: گھر پر رہیں گے
برج میزان: گھر پر رہیں گے
الخ
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لطیفے گھڑے جا رہے ہوں تو لوگ اپنی حکومت کو بھول جائیں۔ چنانچہ صولت پاشا صاحب نے فرمایا:
'قیامت کے دن سب نجات طلب کر رہے ہوں گے اور ہماری حکومت چندے کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کو ڈھونڈ رہی ہوگی'
ایک مفتی صاحب نے پتا نہیں کرونا وائرس پر طنز کیا یا کسی اور پر:
'کرونا تو ایسے تباہی مچا رہا ہے جیسے بائیس سال جدوجہد کے بعد آیا ہو'
اور معلوم نہیں یہ کس تاریخ داں کا جملہ ہے کہ:
'اس سے پہلے صرف اسلام اتنی تیزی سے پھیلا تھا'
آخر میں ادریس بابر کا شعر جو عالمگیر وبا کے دور میں بھی ہجر کا رونا رو رہے ہیں:
ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا
اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا