ندال کے بقول، عراق اور افغانستان میں امریکی لڑائی میں اُنھوں نے اپنی ’ہمدردیاں تبدیل کیں‘۔ اُنھیں قتل عمد کا جرم ثابت ہونے پر سزا دی گئی، جن کے فوجی ساتھی اِن دو جنگی محاذوں پر تعیناتی کی تیاری میں تھے
واشنگٹن —
ایک امریکی فوجی جیوری نے فوج کے سائکیاٹرسٹ کو 2009ء میں ٹیکساس کے فورٹ ہُڈ اڈے پر گولیاں چلا کر قصداً 13ساتھی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی ہے۔
بدھ کے دِن سزا سنانے سے قبل، 13 ارکان پر مشتمل جیوری نے کچھ دیر تک آپس میں مشورہ کیا۔ امریکہ میں پیدا ہونے والے میجر ندال حسن نے دو ہفتے تک جاری رہنے والی مقدمے کی کارروائی کے دوران بظاہر موت کی سزا کی خواہش کی تھی۔
حسن کے بقول، عراق اور افغانستان میں امریکہ کی لڑائی کے سلسلےمیں اُنھوں نے اپنی ’ہمدردیاں تبدیل کیں‘۔ قتل عمد کا جرم ثابت ہونے پر ، اُنھیں سزا سنائی گئی، جن کے فوجی ساتھی اِن دو جنگی محاذوں پر تعیناتی کی تیاری میں تھے۔
اُن کے بقول، اُنھوں نے یہ حملہ اِس لیے کیا تاکہ بیرون ملک مسلمان باغیوں پر ہونے والے حملوں کو روکا جاسکے۔
کرنل مائیک مُلیگان پر مشتمل مقدمے کے فوجی استغاثے نے جیوری سے استدعا کی تھی کہ شوٹنگ کے حملے کی پاداش میں حسن کو موت کی سزا سنائی جائے، جس واقعے میں اُنھوں نے دیگر 30سے زائد افراد کو بھی زخمی کیا۔
جیوری سے مخاطب ہوکر، ملیگان نے کہا کہ، ’حسن نہ آج شہید ہے اور نہ کبھی شہید بن سکتا ہے۔ وہ ایک مجرم ہے۔ اُس نے قصداً قتل کا ارتکاب کیا‘۔
پیشی کے دوران، حسن نے اپنا دفاع خود ہی کیا، صفائی میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور اپنی گواہی سے انکار کیا۔
اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اُنھوں نے ہی گولیاں چلائیں، اور جوں جوں کیس تکمیل کے قریب پہنچا، اُنھوں نے جیوری سے کہا کہ، ’مجھے کوئی آخری بیان نہیں دینا‘۔
مقدمے میں ایک مرحلے پر، اُن کے قانونی مشیروں نےکہا کہ بیالیس برس کے حسن اپنے خلاف لگنے والے الزامات کا جواب دینے کے سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہے، کیونکہ، اُن کے خیال میں، وہ قتل عمد پر سزا پانا چاہتے ہیں، تاکہ اُنھیں موت کی ہی سزا ہو۔
جس جیوری نے اُنھیں سزا سنائی، اُسی نے اُنھیں تمام 45الزامات میں قصور وار ٹھہرایا تھا، جس سےقبل عدالت کے سامنے گواہان کی شہادتیں پیش اور قلم بند ہوئیں، جن میں بتایا گیا کہ کس طرح فورٹ ہُڈ کے میڈیکل سینٹر میں، ندال حسن نے فوجیوں پر سوچ سمجھ کر گولیاں چلائیں۔
موت کی سزا زہر کے انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے، جس پر ازخود نظر ثانی ہو سکتی ہے جس میں کئی برس لگ سکتے ہیں، اور اس پر عمل درآمد کی منظوری بالآخر امریکی صدر کو دینی ہوتی ہے۔ ایک متبادل کے طور پر، جیوری حسن کو عمر قید کی سزا دے سکتی تھی۔
امریکی فوج میں موت کی سزا شاذ و نادر دی جاتی ہے۔ اس وقت، موت کی سزا کے منتظر مجرموں کی کُل تعداد پانچ ہے۔ آخری امریکی فوجی کو 1961ء میں موت کی سزا دی گئی تھی۔
ادھر، ایسو سی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، ندال حسن نے کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران اپنے دفاع میں کوئی خاص حصہ نہیں لیا۔ اور، آج جب جیوری کا سربراہ تحریر شدہ فیصلہ سنا رہا تھا، ندال حسن کے چہرے پر کسی طرح کا کوئی تاثر نہیں تھا۔
وہ کہہ چکے ہیں کہ اُنھوں نے یہ عمل بیرون ملک مسلمان باغیوں کو، اُن کے بقول، ’امریکی جارحیت‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا، اور کبھی گولیاں چلانے کا انکار نہیں کیا۔
بدھ کے دِن سزا سنانے سے قبل، 13 ارکان پر مشتمل جیوری نے کچھ دیر تک آپس میں مشورہ کیا۔ امریکہ میں پیدا ہونے والے میجر ندال حسن نے دو ہفتے تک جاری رہنے والی مقدمے کی کارروائی کے دوران بظاہر موت کی سزا کی خواہش کی تھی۔
حسن کے بقول، عراق اور افغانستان میں امریکہ کی لڑائی کے سلسلےمیں اُنھوں نے اپنی ’ہمدردیاں تبدیل کیں‘۔ قتل عمد کا جرم ثابت ہونے پر ، اُنھیں سزا سنائی گئی، جن کے فوجی ساتھی اِن دو جنگی محاذوں پر تعیناتی کی تیاری میں تھے۔
اُن کے بقول، اُنھوں نے یہ حملہ اِس لیے کیا تاکہ بیرون ملک مسلمان باغیوں پر ہونے والے حملوں کو روکا جاسکے۔
کرنل مائیک مُلیگان پر مشتمل مقدمے کے فوجی استغاثے نے جیوری سے استدعا کی تھی کہ شوٹنگ کے حملے کی پاداش میں حسن کو موت کی سزا سنائی جائے، جس واقعے میں اُنھوں نے دیگر 30سے زائد افراد کو بھی زخمی کیا۔
جیوری سے مخاطب ہوکر، ملیگان نے کہا کہ، ’حسن نہ آج شہید ہے اور نہ کبھی شہید بن سکتا ہے۔ وہ ایک مجرم ہے۔ اُس نے قصداً قتل کا ارتکاب کیا‘۔
پیشی کے دوران، حسن نے اپنا دفاع خود ہی کیا، صفائی میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور اپنی گواہی سے انکار کیا۔
اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اُنھوں نے ہی گولیاں چلائیں، اور جوں جوں کیس تکمیل کے قریب پہنچا، اُنھوں نے جیوری سے کہا کہ، ’مجھے کوئی آخری بیان نہیں دینا‘۔
مقدمے میں ایک مرحلے پر، اُن کے قانونی مشیروں نےکہا کہ بیالیس برس کے حسن اپنے خلاف لگنے والے الزامات کا جواب دینے کے سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہے، کیونکہ، اُن کے خیال میں، وہ قتل عمد پر سزا پانا چاہتے ہیں، تاکہ اُنھیں موت کی ہی سزا ہو۔
جس جیوری نے اُنھیں سزا سنائی، اُسی نے اُنھیں تمام 45الزامات میں قصور وار ٹھہرایا تھا، جس سےقبل عدالت کے سامنے گواہان کی شہادتیں پیش اور قلم بند ہوئیں، جن میں بتایا گیا کہ کس طرح فورٹ ہُڈ کے میڈیکل سینٹر میں، ندال حسن نے فوجیوں پر سوچ سمجھ کر گولیاں چلائیں۔
موت کی سزا زہر کے انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے، جس پر ازخود نظر ثانی ہو سکتی ہے جس میں کئی برس لگ سکتے ہیں، اور اس پر عمل درآمد کی منظوری بالآخر امریکی صدر کو دینی ہوتی ہے۔ ایک متبادل کے طور پر، جیوری حسن کو عمر قید کی سزا دے سکتی تھی۔
امریکی فوج میں موت کی سزا شاذ و نادر دی جاتی ہے۔ اس وقت، موت کی سزا کے منتظر مجرموں کی کُل تعداد پانچ ہے۔ آخری امریکی فوجی کو 1961ء میں موت کی سزا دی گئی تھی۔
ادھر، ایسو سی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، ندال حسن نے کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران اپنے دفاع میں کوئی خاص حصہ نہیں لیا۔ اور، آج جب جیوری کا سربراہ تحریر شدہ فیصلہ سنا رہا تھا، ندال حسن کے چہرے پر کسی طرح کا کوئی تاثر نہیں تھا۔
وہ کہہ چکے ہیں کہ اُنھوں نے یہ عمل بیرون ملک مسلمان باغیوں کو، اُن کے بقول، ’امریکی جارحیت‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا، اور کبھی گولیاں چلانے کا انکار نہیں کیا۔