عارف وزیر اور ساجد حسین کی ہلاکتوں کی تفتیش کا مطالبہ

فائل

'فورم ایشیا' کہلانے والے 'ایشین فورم فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈویلپمنٹ' نے کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے انصاف اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

فورم ایشیا نے بدھ کے روز اپنی ایک پریس ریلیز میں تین مئی کو سیاسی کارکن عارف وزیر کے قتل اور دس روز قبل، ساجد حسین کی سویڈن کے دریا سے لاش برآمد ہونے کے معاملات کا ذکر کیا ہے۔

فورم ایشیا کے بقول، ''انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں کیلئے، پاکستان میں خطرات بڑھتے جا رہے ہیں''۔

ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، شمینی دارشنی نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو ایسی فضا پیدا کرنی ہوگی جس میں انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر اپنے جائز کام جاری رکھ سکیں''۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ''پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو ناسازگار ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے''۔

فورم ایشیا شہری اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی متعدد تنظیموں سے مل کر بنایا گیا ہے، جو اس وقت 21 ایشیائی ملکوں میں کام کر رہا ہے۔ ساتھ ہی فورم اقوام متحدہ کی اکنامک اور سوشل کونسل اور آسیان کے انٹر گورنمینٹل کمیشن آن ہیومن رائٹس کی مشاورت سے منسلک ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما عارف وزیر پشتونوں کیلئے شہری حقوق کی مہم چلا رہے تھے۔ پی ٹی ایم قبائلی علاقوں میں پاکستان کی پالیسیوں کی ناقد ہے۔

پی ٹی ایم کی تحریک اس وقت شروع ہوئی جب ستمبر سن 2001ء میں، پاکستانی حکومت نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں بہت سے قبائلیوں کو بےگھر ہونا پڑا اور مبینہ طور پر بہت سے لوگ لاپتا ہوئے۔ اس سلسلے میں، ماورائے عدالت ہلاکتوں کےالزامات عائد کئے گئے، جنہیں پاکستان فوج ''حقائق کے برخلاف'' کہہ کر مسترد کرتی ہے۔

پی ٹی ایم نے 'ٹرُتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیشن' تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ لاپتا ہونے والے افراد کی ہلاکت سے متعلق تحقیقات کی جا سکے۔

پیرس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ عارف وزیر نے قبائلی علاقے میں کارروائی کے نتیجے میں پشتونوں پر مرتب ہونے والے اثرات کی بات کی تھی۔ ساتھ ہی، پریس ریلیز میں شکایت کی گئی ہے کہ پی ٹی ایم کو ذرائع ابلاغ میں جائز کوریج نہیں دی جاتی۔

ادھر، پاکستانی صحافی اور بلوچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکن ساجد حسین کی لاش 23 اپریل کو سویڈن کےایک دریا سے ملی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ دھمکیاں ملنے کے بعد، ساجد سن 2012ء میں سویڈن میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی۔ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں لکھا کرتے تھے۔

چند صحافتی تنظیموں کی جانب سے پاکستان کو صحافیوں کیلئے ''خطرناک'' قرار دیا گیا ہے، کیونکہ، بقول ان کے، ''وہاں صحافیوں کے تحفظ کیلئے کوئی موثر طریقہ کار موجود نہیں ہے''۔

فورم ایشیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس بھی قانونی اختیار رکھنے کے باوجود غیر موثر ہے۔
فورم ایشیا نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ فوری طور پر عارف وزیر اور ساجد حسین کی ہلاکتوں پر ''غیرجانبدار اور آزاد'' تحقیقات کا آغاز کیا جائے اور ''ان کی ہلاکتوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے''۔