’بھارتی حکومت جنرل باجوہ کیلئے سرخ قالین بچھائے‘

بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ معطل دو طرفہ مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کی غرض سے پاکستان کی بَری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کیلئے سرخ قالین بچھایا جائے اور اُنہیں نئی دہلی آنے کی دعوت دی جائے۔

اے ایس دولت پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کے ساتھ بھارتی ٹیلی ویژن این ڈ ی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بات کر رہے تھے۔

دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے ان سابق سربراہوں نے مشترکہ طور پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے ’دا سپائی کرانیکل: را، آئی ایس آئی اور امن کا سراب۔‘ اس کتاب کی رونمائی نئی دہلی میں ہونا ہے۔ لیکن، اسد درانی کو ابھی بھارتی حکومت نے ویزا جاری نہیں کیا ہے۔

را کے سابق سربراہ نے سفارتی اور سٹریٹجک شعبوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب سے کچھ عرصہ قبل یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن ایک دوسرے سے ملاقات کیلئے راضی ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر یہ دونوں باہمی اختلافات کم کرنے کیلئے ملاقات کر سکتے ہیں تو پھر بھارت اور پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔

اے ایس دولت اور اسد درانی دونوں نے پروگرام میں زور دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان عوامی سطح پر رابطے بڑھائے جانے چاہئیں جن میں ویزا جاری کرنے میں نرمی اور کرکٹ تعلقات کی بحالی بھی شامل ہو۔

اسد درانی نے اس پروگرام میں سکائپ کے ذریعے شرکت کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی رائے میں بھارت اور پاکستان کے سابق وزرائے اعظم من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کی شرم الشیخ میں ہونے والی ملاقات میں سرد مہری کی برف پگھل گئی تھی۔ لیکن دونوں ملکوں کی بیوروکریسی نے اس ملاقات میں ہونے والی پیش رفت کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ اُن کے مطابق، اس ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ نظام تشکیل دینے کے حوالے سے بھی سمجھوتہ طے پا گیا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

دونوں سابق ’سپائی چیفس‘ نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے کردار کے بارے میں ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف کیا۔ اسد درانی نے کہا کہ دوول پاکستان کے بارے میں سخت پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو اُن کے باس بھارتی وزیر اعظم مودی چاہتے ہیں۔

اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ دوول اُن کے پرانے دوست ہیں اور اُن کی رائے میں وہ بہت قابل اور ذہین شخص ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ پاکستان کے بارے میں سخت مؤقف رکھتے ہیں۔ تاہم، وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو وزیر اعظم مودی چاہتے ہیں۔ اے کے دولت کے مطابق، دوول سمجھتے ہیں کہ مودی کا وزیر اعظم بننا بھارت کیلئے سب سے مثبت چیز ہے۔

دوسری جانب اسد درانی نے مبینہ طور پر مذکورہ کتاب میں لکھا ہے کہ دوول اور مودی کے ہوتے ہوئے وہ پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے کوئی اچھی اُمید نہیں رکھتے۔ اُنہوں نے 2016 میں نئی دہلی میں دوول کی بھارت کیلئے پاکستان کے چھ سابق ہائی کمشنرز سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں دوول نے بے رخی کا رویہ اپناتے ہوئے اُن سے کہا، ’’ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر تحقیقات کے نتیجے میں آپ کی طرف سے کوئی اچھی خبر نہ آئی اور اگر ہمیں معلوم ہوا کہ پٹھان کوٹ اور ممبئی کے حملوں میں پاکستان کی ریاست کسی بھی حوالے سے ملوث تھی تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔‘‘

اسد درانی نے کہا کہ ملاقات کے اختتام پر دوول نے پاکستان کے سابق ہائی کمشنرز سے ہاتھ بھی نہیں ملایا اور کمرے سے چلے گئے۔

تاہم، دولت نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے اس ملاقات کے بارے میں نئی دہلی میں مختلف باتیں سنی ہیں اور پاکستان کے سابق ہائی کمشنرز کو دوول کے رویے پر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ کتاب کی رونمائی کی تقریب میں اسد درانی کو مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن، اُنہیں ویزا جاری نہیں کیا گیا ہے۔ لہذا، اس بات کا امکان ہے کہ کتاب کی رونمائی آئندہ ہفتے اُن کے بغیر ہوگی۔

تاہم، ماہرین اس بات کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے دو سابق سربراہوں نے مشترکہ طور پر کتاب لکھی ہے اور یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔