بھارت: مسلمانوں کے گھر مسمار کرنے کا معاملہ، سابق ججز کا چیف جسٹس سے مداخلت کا مطالبہ

بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) رہنماؤں کے متنازع بیانات کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے شرکا کے مکانات انہدام کرنے کے معاملے پر مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق ججز، ماہرین قانون اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس سپریم کورٹ سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

دریں اثنا سخت گیر ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)، انفرادی طور پر بی جے پی کے بعض ارکانِ پارلیمنٹ اور ہفتے کو اتراکھنڈ کے ہریدوار میں منعقدہ وی ایچ پی کے اجلاس میں شریک 200 سادھو سنتوں نے نوپور شرما اور نوین جندل کی حمایت کی ہے۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے تین تین سابق ججز سمیت 12 ممتاز قانون دانوں نے سپریم کورٹ کے نام ایک خط میں اترپردیش کی حکومت پر آئین و دستور کا مذاق اڑانے کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے اپیل کی ہے کہ وہ بی جے پی رہنماؤں کے متنازع بیانات کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر ریاستی حکومت کے مبینہ تشدد اور جبر کے معاملے میں مداخلت کرے۔

انہوں نے مظاہرین کے گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کرنے کو ’قانون کی حکمرانی کی ناقابلِ قبول خلاف ورزی‘ قرار دیا اور عدالت سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں از خود کارروائی کرے۔

اس خط پر سپریم کورٹ کے سابق ججز بی سدرشن ریڈی، وی گوپال گوڈا اور اے کے گانگولی کے علاوہ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ، مدراس ہائی کورٹ کے سابق جج اور لا کمیشن آف انڈیا کے سابق چیئرپرسن جسٹس کے چندرو اور کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس محمد انور اور سپریم کورٹ کے تین سینئر وکلا نے دستخط کیے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت: مسلمانوں کے گھر مسمار کرنے کے خلاف احتجاج اور گرفتاریاں

’اجتماعی ماورائے عدالت سزا‘

سابق ججز کا موؐقف ہے کہ پریاگ راج کی پولیس اور پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے عہدے داروں نے جس طرح منظم انداز میں کارروائی کرتے ہوئے ایک دو منزل عمارت کو منہدم کیا ہے وہ ’ماورائے عدالت اجتماعی سزا‘ ہے۔

خیال رہے کہ پریاگ راج پولیس اور پی ڈی اے کے عہدے داروں نے اتوار کو ایک سیاسی و سماجی کارکن اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے پریاگ راج کے عہدے دار جاوید محمد کے مکان کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کردیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا میں ایسی ویڈیوز وائرل ہیں جن میں پولیس حراست میں لاٹھیوں سے نوجوانوں کی پٹائی کی جا رہی ہے، مظاہرین کے گھروں کو بغیر کسی اطلاع اور وجہ کے مسمار کیا جا رہا ہے اور پولیس مسلم طبقے کے مظاہرین کا پیچھا کر رہی اور انہیں لاٹھیوں سے پیٹ رہی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ایسے نازک وقت میں عدلیہ کا امتحان ہے۔ ماضی میں عدلیہ نے از خود کارروائی کی ہے اور بلا تفریق عوام کے حقوق کے نگہبان کے طور پر ابھری ہے۔

پریاگ راج کے جاوید محمد کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ پی ڈی اے کی جانب سے ایک روز قبل جاوید کے نام نوٹس چسپاں کیا گیا تھا جب کہ وہ مکان جاوید کی اہلیہ پروین فاطمہ کے نام ہے اور 20 برس پرانا ہے۔

پولیس نے جاوید محمد کو جمعے کو پریاگ راج میں مظاہرے کے دوران ہونے والے مبینہ تشدد کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے۔ حالانکہ ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ احتجاج میں شامل نہیں تھے بلکہ لوگوں کو احتجاج سے روک رہے تھے۔ پولیس نے انہیں ہفتے کو گرفتار کر لیا تھا۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نے مختلف میڈیا اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے جاوید کے مکان کے انہدام کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیا ہے۔

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے عہدے داروں نے نئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس کرکے پریاگ راج اور دیگر شہروں میں مسلمانوں کے مکانوں کے انہدام کو ’بلڈوزر دہشت گردی‘ او رانہدام کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

پارٹی کے صدر ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں الزام لگایا کہ جاوید محمد اور ان کی بیٹی آفرین فاطمہ کو اس لیے ہدف بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ سی اے اے مخالف تحریک میں پیش پیش تھے۔ جاوید محمد ویلفیئر پارٹی کے ریاستی عہدے دار ہیں۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ بی جے پی حکومت اپنے ووٹ بینک کے لیے مسلمانوں کو ہدف بنا رہی اور انہیں خوف زدہ کر رہی ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے ایک پریس بیان جاری کرکے بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں پرامن مظاہرین کے خلاف اضافی پولیس فورس کی تعیناتی ختم اور بقول اس کے متعدد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بند کرے۔

بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا بورڈ کے چیئرمین آکار پٹیل نے کہا ہے کہ حکومت ان مسلمانوں کو جو پرامن انداز میں احتجاج کر رہے ہیں بد نیتی کے ساتھ چن چن کر نشانہ بنا رہی ہے۔

آکار پٹیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت ملکی آئین اور ان متعدد بین الاقوامی قوانین کا، جن پر اس نے خود دستخط کیے ہیں، خلاف ورزی کر رہی ہے۔ حکومت نے بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی قانونی کارروائی یا عدالتی حکم کے مسلمانوں کے مکانات منہدم کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر گولیاں چلانا، سر پر گولی مارنا اور ایک شخص کو تو چھ چھ گولیاں ماری گئیں، یہ انسانی حقوق کے قوانین کی مکمل خلاف ورزی ہے اور حکومت کو یہ سلسلہ بند کرنا چاہیے۔

بی جے پی کا ردِعمل

بی جے پی نے پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیانات دینے والے دونوں پارٹی رہنماؤں کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے اور کسی کو بھی دوسرے مذاہب کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس نے اپنے ترجمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹی وی مباحثوں میں کوئی مذہبی بات نہ کریں۔

مرکزی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ ان دونوں رہنماؤں کے بیانات حکومت کے نظریات و خیالات کی نمائندگی نہیں کرتے اور وہ تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔

مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائی کے بارے میں یوپی حکومت کا کہنا ہے کہ صرف انہی لوگوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جنہوں نے تشدد کیا۔ حکومت کسی کو بھی تشدد کرنے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی۔


آفرین فاطمہ کون ہیں؟

خیال رہے کہ جب سے جاوید محمد کے مکان کو منہدم کیا گیا ہے، ان کی صاحبزادی آفرین فاطمہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہیں۔

آفرین فاطمہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور جے این یو کی سابق طالبہ ہیں۔ وہ سیاسی و سماجی تحریکوں میں پیش پیش رہتی ہیں۔ سی اے اے مخالف تحریک کا وہ بھی ایک معروف چہرہ تھیں۔

انہوں نے اے ایم یو سے لسانیات میں گریجویشن کیا ہے۔ انہوں نے 2018 میں اے ایم یو کے ویمنس کالج کی طلبہ یونین کا انتخاب لڑا اور صدر منتخب ہوئیں۔ انہوں نے ہاسٹل میں طالبات پر عائد متعدد پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔ ان کی کوششوں سے وہاں طالبات کو کچھ مراعات حاصل ہوئی تھیں۔

ان کی انہی سرگرمیوں کے پیش نظر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے انہیں پارٹی کی اسٹوڈنٹس ونگ فریٹر نیٹی موومنٹ کی نیشنل سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ ہونے والی مبینہ ناانصافی کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں مصروف ہیں۔