پاکستان میں ان دنوں آٹے کی قیمتوں میں بڑھوتری اور بعض مارکیٹوں میں آٹے کی عدم دستیابی کا مسئلہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اٹھارہ جنوری 2020ء کو خبریں گردش کرنا شروع کرتی ہیں کہ خیبر سے کراچی تک آٹا مہنگا ہوگیا ہے اور فی کلو آٹے کی قیمت 70 روپے کر دی گئی ہے۔
مہنگائی کا یہ شور پنجاب میں بسنے والوں کے لئے تشویش کا باعث بنا کہ جو آٹا وہ فی کلو 40 سے 50 روپے میں خرید رہے ہیں وہ اچانک سے 70 روپے فی کلو کیسے ہوگیا؟ یعنی بیس کلو کی جو بوری وہ 800 روپے میں خرید رہے تھے وہ اچانک سے 1400 روپے کیسے ہوگئی؟
پنجاب میں آٹے کی فراہمی اور نرخوں کی صورتحال جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے رُخ کیا پرچون کی دُکانوں کا جہاں کُچھ شہریوں سے پوچھا کہ کیا اُنہیں آٹا مل رہا ہے؟ منور خان نامی ایک شہری نے بتایا کہ وہ ٹی وی پر آٹے کے مہنگا ہونے کی خبر سُن کر پریشان ہوئے، کیونکہ آئندہ دس دنوں میں اُن کے بیٹے کی شادی ہے اور گھر میں کُچھ ہی روز بعد مہمانوں کی آمد یقینی ہے۔ اس لئے وہ احتیاطاً آٹا لینے آئے ہیں۔ فی الحال، تو اُنہیں آٹے کے بیس کلو کا تھیلا پُرانے ریٹ یعنی 850 روپے کا ملا ہے اور آسانی سے ایک ہی دُکان سے مل گیا۔
ملوں کی صورتحال جاننے کے لئے وائس آف امریکہ کی ٹیم نے نیشنل فلور مل کا دورہ کیا، جہاں گندم کی صفائی سے لے کر پسائی اور آٹا بنانے کا عمل جاری تھا اور مشینیں معمول کے مطابق آٹھ گھنٹے کام کر رہی تھیں۔ پنجاب آٹا نمبر ایک اور سُپریم آٹے کے نام سے آٹا فروخت کرنے والی کمپنی کے ڈائریکٹر اور پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق چئیرمین، محمد خلیق ارشد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پچاس برس پہلے جب وہ اس شعبے میں آئے اُس وقت اٹھارہ روپے فی من آٹا فروخت ہوتا تھا۔ جو اتنے برسوں میں آٹھ سو روپے سے اُوپر کی سطح پر پہنچا ہے۔ گزشتہ تین سال سے آٹے کی قیمت میں خاصا فرق نہیں آیا، حکومت گندم کی قیمت جتنی اُوپر لے جاتی ہے بس اُتنی ہی آٹے کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اخبارات میں آ رہا ہے کہ آٹا 70 روپے فی کلو ہوگیا ہے جو بالکل درست بات نہیں۔ اس وقت بھی 40 روپے کلو مل کا آٹا دستیاب ہے، آٹھ سو پانچ روپے اس کی ریٹیل قیمت ہے اور پورے پنجاب میں دستیاب ہے۔ البتہ، آٹا چکی والوں نے اپنا ریٹ ضرور بڑھایا ہے۔ لیکن، چکی کا آٹا تو ہمیشہ سے مل کے آٹے سے مہنگا فروخت ہوتا رہا ہے یعنی 64 روپےسے 70 روپے پر آیا ہے اور اُسے استعمال کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ مہنگی شے کا انتخاب کر رہے ہیں۔
پاکستان میں گندم کی پیداوار اور حکومتی حصہ:
پاکستان میں گندم کی پیداوار سالانہ 25 ملین ٹن ہے، جس میں سے تقریباً آٹھ ملین ٹن گندم حکومت کسانوں سے خریدتی ہے، جس میں پاسکو اور صوبائی حکومتوں کا حصہ بھی شامل ہے۔ یعنی ہر صوبہ گندم کی خریداری کے لئے مُختص اپنے بجٹ میں سے اشیائے ضروریہ کی خریداری کرتا ہے، تاکہ بوقت ضرورت عوام تک سبسڈائز آٹا پہنچ سکے۔ کُچھ حصہ کسان اپنے لئے رکھ لیتے ہیں، باقی رہ جانے والی گندم کا بڑا حصہ اوپن مارکیٹ میں ملیں سارا سال خریدتی رہتی ہیں۔ محمد خلیق ارشد نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ سالوں سے پاکستان میں گندم اس قدر وافر مقدار میں موجود تھی کہ حکومت کو اُس سے چھٹکارے کے لئے اُسے درآمد کرنا پڑا، کیونکہ ذخائر جتنے زیادہ ہوتے جائیں گے بدعنوانی کے مواقع بڑھیں گے، زیادہ عملے کی ضرورت ہوگی تو فی من گندم سنبھالنے پر حکومت کا تقریباً ساڑھے چار سو روپے خرچ آتا ہے۔ اسی کو مدںظر رکھتے ہوئےگزشتہ اور موجودہ حکومت نے مُختلف مراحل میں تقریباً دو ملین ٹن گندم برآمد کیں جس کی وجہ سے کُچھ حد تک بوجھ کم ہوگیا۔ لیکن، گزشتہ سال گندم کے لئےموسم سازگار نہیں رہا۔ فصل بالکل تیار تھی اور بارش برس گئی اس لئے صورتحال کچھ مُشکل ہوئی۔ لیکن، اتنی خراب نہیں تھی کہ بحرانی کیفیت اختیار کر لیتی کیونکہ بحرحال حکومت کے پاس خاصے ذخائر ابھی بھی موجود ہیں۔
وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری کے مطابق، پنجاب حکومت ہر سیزن ایک خاص مقدار میں گندم کسان سے خریدتی ہے۔ اس برس بھی تقریباً ایک اعشاریہ چار ملین ٹن گندم خریدی گئی اور اُس کے بعد تین اعشاریہ تین ملین میٹرک ٹن فیلڈ سے بھی خریدی۔ تو پنجاب میں اب بھی وافر مقدار میں گندم موجود ہے اور چونکہ خیبر پختونخواہ بہت حد تک پنجاب پر انحصار کرتا ہے تو بڑا بھائی ہونے کے ناطے ہم خیبرپختونخواہ کو گندم بھجوانے کو تیار ہیں۔
کیا گندم کی خریداری صرف پنجاب نے کی؟
اس سلسلے میں جب وائس آف امریکہ نے پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے چئیرمین سینٹرل کمیٹی عاصم رضا احمد سے بات کی تو اُنہوں نے بتایا کہ بحران یا قیمتوں میں اضافے کی بنیاد تو گزشتہ برس اُس وقت ہی پڑ گئی تھی جب سندھ اور بلوچستان جیسے دو صوبوں نے گندم کی خریداری نہیں کی اور نہ ہی وفاق سے ملنے والے اپنے حصے کو خریدنے کے لئے پاسکو کو رقم ادا کی۔ سندھ حکومت کے پاس آٹھ سے دس لاکھ ٹن گندم ضرور پڑی ہوئی تھی۔ لیکن وہ دو سے تین سال پُرانی تھی اور فائن آٹا بنانے کے لئے موزوں نہیں تھی۔ تعطل آنے کے بعد پاسکو سے گندم خریدنے کا فیصلہ کیا گیا، پاسکو نے گندم روانہ کرنی تھی لیکن دُھند کے باعث ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے مزید تعطل کے باعث ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
خیبر پختونخواہ چونکہ پنجاب پر انحصار کرتا ہے ایک جانب ٹرانسپورٹ کے مسائل رہے تو دوسری طرف تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب کو بھی اپنا ہاتھ روکنا پڑا۔ بلوچستان کا معاملہ تو سب سے خراب رہا، اُنہوں نے گندم خریدی نہ ہی پاسکو سے وفاق کی جانب سے ملنے والا اپنا حصہ خریدا۔
عاصم رضا احمد کا کہنا ہے ان حالات کے جنم لینے سے ڈیرھ ماہ پہلے فلور ملز ایسوسی ایشن نے بلوچستان حکومت کو آفر کی کہ آپ پیسے ادا نہ کریں بلکہ ہم ادا کرنے کو تیار ہیں، اُس سے بھی عوام کو ریلیف ملے گا، جو بارہ سو میں تھیلا فروخت ہو رہا ہے وہ نو سو روپے میں آجائے گا۔ لہذا، آپ ہمیں اجازت دیں تو وفاق سے جو حصہ مل رہا ہے وہ ہم خرید لیں۔ لیکن، یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہو پایا، جس کی وجہ سے اب بھی وہاں بارہ سو روپے میں بیس کلو آٹے کا تھیلا ریٹیل فروخت ہورہا ہے۔
اب اگر پنجاب کی صورتحال دیکھیں تو یہاں کسی قسم کا کوئی بحران نہیں۔ پنجاب میں چودہ فیصد چوکر، چھبیس فیصد میدہ فائن اور ساٹھ فیصد آٹے کے حساب سے پنجاب میں یومیہ پچیس ہزار چار سو ٹن گندم جاری کی جا رہی ہے اور اُس سے تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ بیس کلو والے تھیلے روزانہ مارکیٹ میں آتے ہیں۔
فلور مل آٹا مہنگا نہیں ہوا تو پنجاب میں کون سا آٹا مہنگا ہوا:
عاصم رضا احمد نے بتایا کہ چکی آٹا چونسٹھ روپے سے ستر روپے کلو فروخت ہونے سے پنجاب پر بات آئی۔ اُنہوں نے اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر چکی والوں کو اُنیس سو روپے فی من میں بھی گندم ملے تو سینتالیس روپے پچاس پیسے کی گندم بنی تو وہ ستر روپے کیوں فروخت ہو رہی ہے اور اس زیادتی کے شور میں فلور مل انڈسٹری پر بات آ رہی ہے۔ چونتیس روپے پچھتر پیسے فی کلو گندم ہمیں دی جاتی ہے، جس کا آٹا ہم اُنتالیس روپے تیس پیسے ایکس مل ریٹ پر دے دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پونے پانچ روپے کے قریب ہمارے گرائنڈنگ چارجز ہیں۔ ہمارے پاس انڈسٹری میں لیبر بھی چکی سے زیادہ ہے، ٹیکسز کا نظام بھی ہمارا بہتر ہے، واشنگ کا نظام بھی ہمارا بہتر ہے تو ہر لحاظ سے فلور مل کا خرچہ چکی سے زیادہ ہے۔ چکی والے تئیس روپے فی کلو گرائنڈنگ چارجز لے رہے ہیں جبکہ انڈسٹری فی کلو پانچ روپے سے بھی کم چارج کر رہی ہے۔ سات سو تیراسی روپے ایکس مل ریٹ ہے۔
لاہور میں آٹا چکی چلانے والے رانا عبیداللہ معاملے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی اچانک سے ریٹ چالیس سے ستر روپے نہیں کردیے بلکہ چکی سے آٹا خریدنے والے جانتے ہیں کہ یہ عام آٹے سے ہمیشہ مہنگا ہی ملتا ہے۔ آٹا مارکیٹ میں ابھی بھی دستیاب ہے صرف گندم کے ریٹ کا مسلئہ ہے، گورنمنٹ اگر ہمیں گندم جاری کرے گی تو جو ریٹ گورنمنٹ کہے گی ہم اُس پر دینے کو تیار ہیں۔ ساڑھے باہیس سو روپے گندم میں نے خود خریدی ہے جس کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ پہلے ہم ساٹھ روپے فی کلو فروخت رہے تھے، اُس کے پندرہ دنوں بعد چونسٹھ روپے کردیا، ٹھیک پندرہ دنوں بعد ستر روپے کردیا کیونکہ بہاولپور سے ہم گندم خریدتے ہیں وہ ہمیں مہنگی مل رہی ہے۔ سولہ سو روپے تھی، پھر اٹھارہ سو روپے ہوئی، پھر اچانک سے دو ہزار روپے ہوئی اور اب بائیس سو پچاس روپے فی من ریٹ ہوگیا۔
مہنگا ہونے کے باوجود چکی والا آٹا لوگوں کی ترجیح کیوں؟
چکی سے آٹے کی خریداری کرنے آنے والی بزرگ خاتون نذیراں بی بی کا کہنا ہے کہ ہمیشہ سے خالص گندم کھاتے آ رہے ہیں۔ اُنہیں اور اُن کے بچوں کو بھی سادہ آٹا پسند نہیں۔ اور اب تو اُن کی صحت کو بھی راس نہیں آتا۔ تو حکومت کو اس طرف بھی دھیان کرنا چاہیئے کہ جو لوگ خالص آٹا کھانا چاہتے ہیں، لیکن اُن کی جیب اُس کی اجازت نہیں دیتی تو وہ لوگ کیا کریں۔
ایک اور شخص اللہ رکھا نے کہا کہ چکی والا آٹا مہنگا ہونے کے بعد وہ ایک قریبی اسٹور سے فائن آٹا لے آئے۔ دو دن کھانے سے اُن کی طبیعت بگڑ گئی کیوں کہ اُنہیں فائن آٹا کھانے کی عادت نہیں رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ فلور مل والے آٹے سے سوجی، میدہ اور دیگر چیزیں نکال دیتے ہیں اور باقی بچتا ہے پھوگ جو عوام کو آٹے کے نام پر کھلایا جاتا ہے تو پھر چاہے ہمیں چکی والا آٹا مہنگا کیوں نہ پڑے، ہم نے تو یہ ہی کھانا ہے۔
وزارت خوراک پنجاب حالات سے نمٹنے کے لئے کیا کر رہی ہے؟
وزارت خوراک پنجاب کا کہنا ہے کہ چکی والا آٹا آبادی کا ایک مخصوص طبقہ استعمال کرتا ہے، جبکہ آبادی کے ایک بڑے حصے کی ضرورت فائن آٹے سے پوری ہوتی ہے۔ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری نے بتایا کہ جب یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پنجاب میں گندم نہیں آٹے کا بحران ہے تو ہم نے ملوں سے کہہ کر پنجاب کے مُختلف علاقوں میں سات سو ستاسٹھ سیل پوائنٹ لگوائے اور تقریباً 181 جگہوں پر آٹے سے بھرے ٹرک مارکیٹوں میں لے آئے۔ پنجاب حکومت نے ان اسٹیشنز پر آٹے کی قیمت 790 سے 800 روپے مقرر کی۔ اور شام کو جب اوسط نکلی تو چونسٹھ فیصد آٹا فروخت ہوا۔ یعنی کہیں آٹے کے لئے لمبی قطاریں یا بھگدڑ نہیں دیکھی گئی۔
آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کا حل کیا ہے؟
سابق چئیرمین پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن محمد خلیق ارشد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ملوں کا بند کیا جانا، اسٹاف کی معطلی یا چھاپے مارنا اس کا علاج نہیں۔ گندم کا متبادل گندم ہی ہے اور اس کے لئے پہلی سطح پر در آمد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف عوام کو ذہنی تسلی ملے گی بلکہ مُشکل پڑنے پر بیرون ممالک سے گندم منگوانے کی آپشن پاس ہوگی۔ حکومت کو درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کرنا ہوگا۔