مون سون کی حالیہ بارش اور سیلاب سے بلوچستان کا زمینی رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے عارضی طور پر کٹا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالہ سیلاب میں صوبے میں 800 کلو میٹر شاہراہوں کو نقصان پہنچا ہے۔
بلوچستان کا دیگر صوبوں سے رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے متعدد علاقوں میں اشیا خور و نوش کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ حکام دیگر صوبوں سے زمینی رابطہ عارضی طور پر بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں البتہ اب تک مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت بحال نہیں ہو سکی ہے۔
مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت بند ہونے سے بلوچستان میں آٹے اور گندم کی شدید قلت ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں آٹے کی قیمت تاریخ کے بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
کوئٹہ میں شہریوں کا کہنا ہے کہ اس وقت شہر میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2500 روپے میں فروخت ہو رہا ہے جو ایک ہفتے قبل تک 1800 روپے کا تھا۔
آٹے کے قیمتوں میں اضافے سے متوسط اور غریب طبقہ زیادہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کوئٹہ کے میزان چوک پر بیٹھے ایک مزدور محمد افضل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ روزانہ دو کلو آٹا خرید کر گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں البتہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اب صرف ایک کلو آٹا ہی خرید سکتے ہیں۔
محمد افضل نے بتایا کہ ایک ہفتے قبل تک فی کلو آٹا 80 سے 90 روپے میں فروخت ہو رہا تھا البتہ اب یہی آٹا فی کلو 125 روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے۔
ان کے بقول ’’اب بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے سکتے۔ حکومت ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی؟‘‘
دوسری جانب آٹے کی قلت پر آٹا کے ڈیلرز کہتے ہیں کہ حالیہ بارش اور سیلاب کے باعث صوبے میں آمد و رفت کے ذرائع متاثر ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے گندم کی سپلائی میں خلل پیدا ہوا ہے۔
کوئٹہ شہر کے ایک دکان دار عبداللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سندھ سے گندم لانے والی سینکڑوں گاڑیاں سیلاب کے باعث کوئٹہ نہیں پہنچ سکی ہیں، جس کی وجہ سے بلوچستان میں آٹے کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
آٹے کی قلت کی دوسری وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے عبد اللہ نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ 13 روز سے بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے، جس سے مقامی فلور ملز بند ہیں اور عوام کم نرخ میں آٹے کے حصول کے لیے پریشان ہیں۔
آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے باعث فلاحی اداروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، جو سیلاب متاثرین میں راشن تقسیم کر رہے ہیں۔
کوئٹہ میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے نان بائی بھی روٹی مہنگی کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں جب کہ شہریوں کی یہ شکایت اب عام ہے کہ نان بائی پہلے ہی روٹی کے وزن میں ازخود کمی کر چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو سرکاری ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق صوبائی حکومت کے پاس اس وقت گندم کی 100 کلو کی تین لاکھ بوریاں اسٹاک میں موجود ہیں البتہ یہ گندم صوبے کے ایک کروڑ 23 لاکھ آبادی کے لیےکافی نہیں ہے۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق سینٹرل چیئرمین بدر الدین کاکڑ بلوچستان میں آٹے کی قلت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کی آٹے کی قیمت مسلسل اوپر جا رہی ہے، اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بدر الدین کاکڑ نے کہا کہ سیلاب کے باعث جس دن سے بلوچستان کا دیگر صوبوں سے زمینی رابطے منقطع ہوا ہے اسی روز سے صوبے میں آٹے اور گندم کی قلت پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے جن علاقوں میں گندم کی پیداوار ہوتی ہے، ان میں نصیر آباد، جعفر آباد، صحبت پور اور دیگر شامل ہیں البتہ اب وہاں بھی سیلاب آ چکا ہے۔ بلوچستان میں فلور ملز کو گندم کی فراہمی کا یہی واحد ذریعہ تھا جو اس وقت موجود نہیں ہے۔
پنجاب میں صوبائی حکومت پہلے ہی گندم کی بین الاصوبائی نقل و حمل پر پابندی عائد کرچکی ہے جب کہ پنجاب سے آٹے کی ترسیل بھی سیلاب کے باعث بند ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بدرالدین کاکڑ کہتے ہیں کہ سندھ میں بھی سیلابی صورتِ حال ہے، جس کی وجہ سے وہاں سے گاڑیوں میں گندم لاد کر بلوچستان لانا بھی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے عوام کی گندم کی ماہانہ ضرورت 100 کلو کی لگ بھگ 15 لاکھ بوریاں ہے البتہ صوبائی حکومت کے پاس اتنا ذخیرہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے نہ تو آتے کی قیمت میں کمی ہو سکتی ہے اور نہ ہی صوبے کے آٹے کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
دیگر صوبوں کی مثال دیتے ہوئے بدر الدین کاکڑ کا کہنا تھا کہ پنجاب کی صوبائی حکومت عوم کو سستا آٹا فراہم کر رہی ہے۔ ان کے پاس گندم کے ذخائر موجود ہیں، اسی لیے وہ ایسا کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی حکومت ایسا اس لیے نہیں کرسکتی کیوں کہ ان کے پاس تو ایک ماہ کے گندم کا ذخیرہ بھی پورا نہیں ہے۔
SEE ALSO: 'کئی خواتین کیچڑ بھرے گھرچھوڑکر امدادی کیمپ جانے کو تیار نہیں'بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں آٹے کی قلت اور اس کی زائد قیمت پر فروخت پر صوبے کے وزیرِ اعلیٰ میر عبد القدوس بزنجو نے نوٹس لیا ہے۔ سرکاری بیان کے مطابق وزیرِ اعلیٰ نے محکمۂ خوراک کو صورتِ حال کی بہتری کے لیے اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
میر عبد القدوس بزنجو نے محکمۂ خوراک کو ضلعی انتظامیہ کی مدد سے گندم اور آٹے کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا جب کہ محکمۂ خوراک کو ہدایت کی کہ ستمبر کے مہینے کے کوٹے کی گندم فوری طور پر فلور ملز کو جاری کی جائے۔
وزیرِ اعلیٰ نے ہدایت کی کہ گندم اور آٹے پر بین الصوبائی پابندی کے خاتمے کے لیے دیگر صوبوں سے بات کی جائے۔