پاکستان میں پہلی بار ڈیجیٹل طریقے سے مردم شماری کاباقاعدہ آغاز بدھ سے ہو گیا ہے جس کے دوران شمار کنندگان گھر گھر پہنچ کر اپنے ٹیبلٹس میں کوائف کا اندراج کر رہے ہیں۔
ملک بھر میں کی جانے والی اس مشق کے لیے ایک لاکھ 26 ہزار شمار کنندگان کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جب کہ سیکیورٹی کی فراہمی کے لیے مسلح افواج اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے 121000 فیلڈ اسٹاف خدمات پیش کریں گے۔
دس سال کے مقررہ وقت سے پہلے شروع ہونے والی مردم شماری کے آغاز سے قبل پہلے مرحلے میں20 فروری سے آن لائن خود شماری کا آغاز کیا گیا تھا اور یہ عمل تین مارچ تک جاری رہے گا۔
خود شماری کے ذریعے پہلی بار کوئی بھی فرد مردم شماری کے لیے اپنے خاندان کے کوائف اور تفصیلات کا اندراج خود آن لائن کرا سکے گا۔
بدھ سے شروع ہونے والا مردم شماری کا دوسرامرحلہ 15 مارچ تک گھر گھر مہم کی صورت میں جاری رہے گا اور تیسرا مرحلہ 18 مارچ سے یکم اپریل تک ہوگا۔
مردم شماری کے یہ مراحل مکمل ہونے کے بعد مردم شماری کرانے کے ذمے دار ادارے ادارۂ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کو حتمی نتائج جاری کرنے کے لیے مزید 30 دن درکار ہوں گے۔
مردم شماری کے اس سارے عمل پر 34 ارب روپے لاگت آئے گی جو کہ 2017 کی مردم شماری کے مقابلے میں دو گنا ہے۔
SEE ALSO: حکومت ڈیجیٹل حلقہ بندیاں کرنا چاہتی ہے جس میں سات ماہ لگیں گے: چیف الیکشن کمشنرپاکستان میں اب تک چھ مرتبہ خانہ و مردم شماری ہو چکی ہے۔ پہلی مرتبہ 1951 میں مردم شماری کی گئی تھی جس کے بعد 1961 ،1972 ،1981، 1998 اور پھر 2017 میں چھٹی مردم شماری ہوئی۔
مردم شماری کا بنیادی مقصد منصوبہ بندی، پالیسی سازی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے قابل اعتماد معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔
مردم شماری میں جمع کی جانے والی معلومات جنس، عمر، آبادی کی جغرافیہ اور پیشہ ورانہ تقسیم کی نشاندہی کرتی ہے۔
ڈیجیٹل شماری سابقہ مردم شماری سے کیسے مختلف ہے؟
ادارۂ شماریات کے ترجمان سرور گوندل کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل مردم شماری میں جیوگرافک انفارمیشن سسٹم ( جی آئی ایس) سے منسلک الیکٹرانک آلات (ٹیبلٹس) کے ذریعے معلومات اکٹھی کی جائیں گی۔ اور مکمل کوریج کے لیے جیو ٹیگنگ کے ساتھ شمار کنندگان کی رئیل ٹائم مانیٹرنگ معلومات کی شفافیت اور اعتبار میں اضافہ کرے گی۔
سرور گوندل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلی ڈیجیٹل مردم شماری میں شمار کنندگان تمام رہائشی اور اقتصادی یونٹس کی الیکٹرانک لسٹنگ کریں گے جب کہ تجارتی یا رہائشی ہر ڈھانچے کی جیو ٹیگنگ کی جائے گی تاکہ قابلِ اعتماد اعداد و شمار کی فراہمی کے لیے ڈیش بورڈز کے ذریعے حقیقی وقت کی نگرانی کی جاسکے۔
واضح رہے کہ 2017 میں ہونے والی مردم شماری پر اعتراضات کے بعد پاکستان میں وفاق کی سطح پر اعلیٰ فیصلہ ساز ادارے مشترکہ مفادات کونسل نے 2023 کی مردم شماری کو جدید ٹیکنالوجی اور بہترین عالمی طریقہ کار کے مطابق کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس فیصلے کی روشنی میں ادارۂ شماریات نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نادرا کے ساتھ مل کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے سافٹ ویئر اور معلومات کو محفوظ کرنے کے لیے ڈیٹا بینک تیار کیا ہے۔
شمار کنندگان معلومات کو کاغذ کے بجائے کمپیوٹر ٹیبلیٹ پر اندراج کرے گا اور مردم شماری کے اس اہم جزو کو پورا کرنے کے لیے نادرا نے 12 لاکھ 6 ہزار ٹیبلیٹس مقامی طور پر تیار کیے ہیں۔
ادارۂ شماریات کے ترجمان کے مطابق ڈیجیٹل مردم شماری پاکستان کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جانے میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔ اس عمل میں شفافیت اور شراکتی نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیش بورڈز اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل رسائی ہوں گے۔
گنتی کا کون سا طریقہ اپنایا جائے گا؟
سرور گوندل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ مردم شماری میں گنتی کا' ڈی جورے 'طریقہ استعما ل کیا جائے گا ۔اس طریقۂ کار کے مطابق وہ تمام افراد جو کسی خاص جگہ پرکم از کم چھ ماہ سے مقیم ہیں یا چھ ماہ سے زیادہ اسی جگہ رہنے کا ارادہ رکھتے ہوں، وہ اس جگہ میں شمار کیے جائیں گے۔
سرور گوندل کے مطابق مردم شماری کی مشاورتی کمیٹی نے گنتی کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلی غور و خوض کے بعد 'ڈی جورے' طریقے کو اپنانے کا فیصلہ کیا جو کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ادارۂ شماریات کے ترجمان نے کہا کہ مردم شماری کے وقت ملک میں رہنے والی پوری آبادی کی گنتی کی جائے، قطع نظر اس کے کہ اس کی حیثیت کیا ہے یا ان کے پاس شناختی کارڈ ہے یا نہیں۔
پاکستان میں کئی دہائیوں سے بغیر شناختی کارڈ کے رہنے والے بنگالی کمیونٹی کو شمار کرنے کے سوال پر ادارہ شماریات کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بنگالی یا دیگر غیر ملکی جو بھی جہاں رہائش پذیر ہیں، وہ اسی علاقے میں شمار کیا جائے گا چاہے اس کے پاس شناختی کارڈ ہے یا نہیں ہے۔
SEE ALSO: غیر مسلم ووٹرز کی تعداد میں 30 فیصد اضافہخانہ بدوشوں اور بے گھر افراد کی گنتی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں جھونپڑی اور جھگیوں کی بھی گنتی کی جاتی ہے۔ جب کہ خانہ بدوشوں کی گنتی اس مخصوص بلاک میں کی جائے گی جہاں وہ مردم شماری کے دوران پائے جائیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی مخصوص گھر نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ تمام بےگھر افراد جو فٹ پاتھوں، پلوں کے نیچے یا اسٹیشنوں پر سوتے ہیں ان کی گنتی عام طور پر رات کے وقت بلاک میں مردم شماری کے آخری دن کی جائے گی۔
سرور گوندل نے کہا کہ مردم شماری کا بڑا مقصد مخصوص علاقے میں رہنے والے لوگوں کی تعداد کی بنیاد پر منصوبہ بندی اور وسائل کی تقسیم ہے۔
'تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے'
ادارۂ شماریات کے ترجمان نے بتایا کہ مردم شماری میں شفافیت لانے کے لیے حکومت نے تمام صوبوں کے ماہرین پر مشتمل مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے مردم شماری 2017 کے عمل کا تفصیلی جائزہ لیا تھا اور مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے حالیہ مردم شماری کے انعقاد کے لیے سفارشات مرتب کی تھیں۔
ان کے بقول، مردم شماری کے عمل کی مؤثر نگرانی، کوآرڈینیشن اور پالیسی سازی کے فیصلوں کے لیے صوبائی حکومتوں کی نمائندگی کے ساتھ قومی مردم شماری کوآرڈینیشن سینٹر کام کررہا ہے جو شروع سے آخر تک اسٹیک ہولڈرز خاص طور پر صوبوں اور سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے ساتھ تمام امور طے کررہا ہے۔
سرور گوندل نے کہا کہ مشاورتی کمیٹی نے نشاندہی کی تھی کہ 2017 کی مردم شماری میں سب سے بڑا مسئلہ اسٹیک ہولڈرز خاص طور پر صوبوں کی شمولیت نہ ہونے کی وجہ سے 'اعتماد کی کمی' تھا۔لہذا کمیٹی کی سفارش پر تمام صوبوں کو مردم شماری کی منصوبہ بندی سے لے کر مردم شماری کے نتائج مرتب کرنے تک شامل کیا گیا ہے۔