امریکہ میں ایبولا کا پہلا مریض سامنے آگیا ہے جس کے بعد حکام نے مریض کے ساتھ رابطے میں آنے والے افراد کی سرگرمی سے تلاش شروع کردی ہے۔
امریکی ادارے 'سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول' کے سربراہ ڈاکٹر ٹام فرائیڈن نے تصدیق کی ہے کہ منگل کو رپورٹ ہونے والا مریض ایک مرد ہے جسے یہ وائرس مغربی افریقی ملک لائبیریا سے لگا ہے۔
ڈاکٹر فرائیڈن کےمطابق مریض لائبیریا سے 20 ستمبر کو امریکہ کے شہر ڈیلس پہنچا تھا جہاں چند روز بعد اس میں مرض کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔
ڈاکٹر فرائیڈن نے متاثرہ شخص کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اسے ٹیکساس کے ایک اسپتال میں انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے جہاں اس سے ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔
ایبولا سے متاثرہ شخص کے سامنے آنے کے بعد امریکی حکام اس کے ساتھ رابطے میں آنے والے تمام افراد کو تلاش کر رہے ہیں کیوں کہ یہ وائرس ایک مریض سے دوسرے مریض کو لگتا ہے۔
ڈاکٹر فرائیڈن کے مطابق ان کے ادارے کے ماہرین کو خیال ہے کہ متاثرہ شخص کے ساتھ ہوائی جہاز میں امریکہ آنے والے تمام مسافرمحفوظ ہیں کیوں کہ اس وقت متاثرہ شخص میں وائرس کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
منگل کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی حکام وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب رہیں گے اور اس بارے میں کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ متاثرہ شخص سے رابطے میں آنے والے بعض افراد میں آئندہ چند ہفتوں کے دوران ایبولا کی علامات ظاہر ہوجائیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حکام ایسے تمام مریضوں اور ان سے ملنے والے افراد کا سراغ لگا کر مرض کو پھیلنے سے روک لیں گے۔
وہائٹ ہاؤس کے مطابق صدر براک اوباما کو بھی امریکہ میں سامنے آنے والے ایبولا کے پہلے کیس کی تفصیلات سے آگاہ کردیا گیا ہے ۔
خیال رہے کہ ایبولا سے متاثرہ مغربی افریقی ملکوں میں کام کرنے والے امریکی طبی اہلکاروں میں سے بعض اس سے پہلے بھی وائرس کا شکار ہوچکے ہیں جنہیں علاج کے لیے امریکہ لایا گیا تھا لیکن امریکی سرزمین پر سامنے آنے والا وائرس کا یہ پہلا کیس ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ایبولا مریض کے خون یا فضلے سے پھیلتا ہے اور وائرس سے متاثرہ شخص میں اس کی علامات ظاہر ہونے کی مدت دو سے 21 دن ہے۔
ایک مریض سے دوسرے میں منتقل ہونے کے انتہائی امکان کے باعث یہ وائرس اب تک مغربی افریقہ میں 3100 افراد کی جان لے چکا ہے جب کہ 6500 افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
تاحال اس مرض کا حتمی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں وائرس سے متاثرہ شخص کے مرنے کا امکان 90 فی صد تک ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مرض کی ابتدائی علامات فلو سے ملتی جلتی ہیں جس کے شدید ہونے پر متاثرہ شخص کی آنکھوں، مسوڑھوں اور اندرونی اعضا سے خون کا اخراج شروع ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔