پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک میں ماہِ رمضان کا بہت جوش و خروش سے استقبال کیا جاتا ہے۔ لیکن ماضی کے برعکس اس بار کرونا وائرس کے باعث رمضان کی رونقیں نظر نہیں آ رہیں۔
نہ تو رمضان کا چاند دیکھنے کا جوش دکھائی دے رہا ہے نہ ہی پہلی سحری اور پہلے روزے کی وہ خصوصی تیاریاں جو ماضی میں دکھائی دیتی تھیں۔
کرونا وائرس کے باعث پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی تمام نجی و سرکاری اداروں سمیت معاشی، کاروباری، سماجی، مذہبی اور سیاسی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
مارچ کے وسط سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ بازار اور تجارتی مراکز بند اور تعلیمی اداروں میں تدریس معطل ہے۔ سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر میں ملازمین کی حاضری برائے نام رہ گئی ہے۔
لوگوں کا رہن سہن بدل رہا ہے۔ عادات اور روایات تبدیل ہو رہی ہیں۔ دوستوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ختم، حتیٰ کہ لوگوں سے مصافحہ کرنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
پشاور شہر کے چوک فوارہ، قصہ خوانی بازار، چوک یادگار اور یونیورسٹی روڈ پر قائم بازار اور دکانیں خریداری کے مصروف ترین مراکز ہوا کرتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں۔ ان تمام بازاروں میں گنے چنے افراد اور چند ایک دکانیں ہی کھلی ہیں۔ دکان دار اور چھابڑی فروش گاہگوں کی راہ تک رہے ہیں۔
اس عالمی وبا نے مذہبی اجتماعات اور عبادات کو بھی متاثر کیا ہے اور اب رمضان کی رونقیں بھی ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
جمعرات کو پشاور کی تاریخی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی نے رمضان کے چاند سے متعلق اجلاس کیا اور خیبر پختونخوا مختلف اضلاع اور علاقوں سے چاند دیکھنے کی شہادتوں کی اطلاع دی۔
ویسے تو نماز مغرب سے چند منٹ قبل ہی ضلع مردان، چار سدہ، ہنگو اور شمالی وزیرستان میں رمضان کا چاند نظر کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔ لیکن مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں چاند دیکھنے والی کمیٹی نے کچھ علاقوں میں چاند دیکھنے والوں کو مسجد قاسم علی خان طلب کیا اور ان سے تصدیق کی۔
مجموعی طور پر 22 افراد نے چاند دیکھنے کی گواہی دی جن میں سے آٹھ افراد مسجد قاسم علی خان آئے اور کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر گواہی دی۔ بعد ازاں رات کے پونے گیارہ بجے کے قریب مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے 24 اپریل بروز جمعہ کو پہلا روزہ رکھنے کا اعلان کیا۔
مگر اس اعلان کو خاموشی سے سنا گیا۔ ماضی میں چاند نظر آنے کی خوشی میں منچلے ہوائی فائرنگ کرتے تھے اور بازاروں میں رش نظر آتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔
جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب پہلی سحری کے دوران نہ تو سرکاری سائرن کی آواز سنائی دی، نہ ہی کہیں ڈھول بجا کر جاگو کی آواز لگانے والے سحری کے لیے جگانے آئے۔
اسی طرح پہلے رمضان کے پہلے روزے اور پہلے جمعے کے باوجود پشاور سمیت صوبے بھر کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد انتہائی کم نظر آئی۔ البتہ نماز جمعہ کے بعد مختلف مساجد میں کرونا وائرس کے خاتمے کے لیے دعائیں کی گئیں۔