پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں پولیس نے پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنما اور رُکن قومی اسمبلی علی وزیر کے خلاف ریاستی اداروں بالخصوص فوج پر تنفید کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
البتہ، تاحال علی وزیر کو حراست میں نہیں لیا گیا۔ علی وزیر نے مقدمے پر قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔
پولیس کے مطابق علی وزیر کے خلاف فوج پر الزامات لگانے اور تنقید کرنے کی پاداش میں مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
چارسدہ میں اتوار کو پی ٹی ایم کی ریلی سے تحریک کے سربراہ منظور پشتین اور رُکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔
علی وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے ریلی سے خطاب میں کہا تھا کہ جب تک مخصوص ذہنیت کی حوصلہ شکنی نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اُن کے بقول ایسی باتیں عموماً سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی کرتے رہتے ہیں۔
مذکورہ ریلی میں پولیس نے پی ٹی ایم کے دو کارکنوں کو پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرنے کے الزام میں بھی گرفتار کیا ہے۔ اس واقعے پر خیبرپختوںخوا اسمبلی میں بھی ایک قرارداد جمع کرائی گئی ہے۔ جس میں قومی پرچم کی بے حرمتی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قرارداد پیش کرنے والی خاتون رُکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سمیرا شمس کا کہنا ہے کہ ہر فرد اور سیاسی کارکن کو اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ مگر کسی کو بھی قومی پرچم کی توہین اور بے عزتی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
البتہ علی وزیر نے قومی پرچم کی بے حرمتی کے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک شخص قومی پرچم تھامے جلسہ گاہ میں داخل ہوا تو منظور پشتین نے ہدایت کی کہ قومی پرچم کا احترام کیا جائے، اور اسے کسی مناسب جگہ پر لہرایا جائے۔
علی وزیر کا کہنا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ اقدام کیا گیا۔
قومی پرچم کی توہین کے الزام میں پی ٹی ایم کے گرفتار کارکنوں کی ضمانت پر رہائی کے لیے چارسدہ کی مقامی عدالت میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
علی وزیر کے خلاف اس سے پہلے بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ کراچی اور اسلام آباد میں اسی قسم کے مقدمات درج ہیں۔
گزشتہ سال 26 مئی کو شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے خڑکمر میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے کے الزام میں علی وزیر اور محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم کے ایک درجن کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ علی وزیر کو ان مقدمات میں لگ بھگ چار ماہ بعد ضمانت پر رہائی ملی تھی۔