پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے تمام معاملات پر اصولی اتفاق ہو چکا ہے۔ آئندہ ایک دو روز میں بقیہ امور بھی طے کر لیے جائیں گے جس کے بعد تکنیکی امور طے کرنے کے لیے چند ہفتوں میں آئی ایم ایف کا وفد پاکستان جائے گا۔
واشنگٹن میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے الیکشن ہی معاشی نظام میں بنیادی اصلاحات کے نام پر لڑا تھا اور ہم یہ بنیادی اصلاحات آئی ایم ایف کی ایماء پر نہیں بلکہ ملکی مفاد میں کریں گے۔
بقول اسد عم، ’ادائیگیوں کے توازن کی صورت حال جو کر دی گئی تھی، اس سے نمٹنے کے لیے ایسے اقدامات کرنا پڑے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی بڑھی لیکن یہ اقدامات زیادہ تر اٹھائے جا چکے ہیں، اس کے بعد بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے لیے کام کیا جائے گا‘۔
اسد عمر نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں کیا کیونکہ ان کی تجاویز پاکستان کی معیشت کے لیے بہتر نہیں تھیں اور ہم نے دیگر آپشن تلاش کئے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم اور برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بقول اسد عم، ’ہمارے اقدامات کا نتیجہ ہے کہ فروری میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 72 فیصد کم ہوا اور ہر ماہ اس خسارے میں کمی آ رہی ہے۔ فنانسنگ کا انتظام بھی ہم کر چکے تھے۔ اور اب آئی ایم ایف کے جس پروگرام میں ہم جا رہے ہیں، وہ ادائیگیوں کے لیے بلکہ معیشت کی بہتری کے لئے ہے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن کا تجزیہ
پاکستان کے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن کہتے ہیں کہ وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ کہنا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ معیشت کی بہتری کے لیے ہے، قرضوں کی ادائیگی کے لئے نہیں، غلط ہے کیونکہ اب بھی بجٹ خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف سے حاصل کردہ رقم بھی قرضوں کی ادائیگیوں پر ہی خرچ کرنا ہو گی۔
بقول ڈاکٹر شاہد حسن،’’ ہمارا اس سال جو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہو گا وہ خطرے کے نشان پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بھی پاکستان بحرانی کیفیت میں ہے۔ اور ادائیگیوں کے توازن کے لیے ہی قرضہ لینا ہے۔ اسد عمر کی بات صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ہم نے 7 اعشاریہ 2 ارب ڈالر دوستوں سے قرضے لیے ہیں۔ وہ ایک سال کے لیے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایک سال کے بعد اس کی تجدید نہ کریں۔ بنیادی ڈھانچے کی اصلاحات، جس کا نئی حکومت نے وعدہ کیا تھا، وہ اب تک نہیں کیا گیا، جائیداد پر ٹیکس اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لئے اقدامات نہیں ہوئے تو پھر یہ قرضہ سوائے قرضوں کی ادائیگیوں کے اور کس لیے ہو سکتا ہے؟
اسد عمر نے کہا کہ جب بھی وہ پاکستان سے باہر جاتے ہیں، ان کے عہدہ چھوڑنے کی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں۔
پاکستان اور بیرونی تجارت
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ خطے میں تجارت کا فروغ پاکستان کی پالیسی ہے، اسی لیے ترکی اور ترکمانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافے کی بات چیت مکمل کر لی گئی ہے، افغانستان سے بات ہونے جا رہی ہے جب کہ بھارت کو پیشکش کی گئی تھی لیکن مثبت جواب نہیں ملا۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت میں انتخابات کی وجہ سے یہ رکاوٹ ہے۔ توقع ہے کہ انتخابات کے بعد ہندوستان سے بھی بات چیت ہو گی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافہ ہو گا۔
اسد عمر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت نزاعی صورت حال سے نکل چکی ہے اور استحکام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ 12 سے 18 مہینوں میں یہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی۔
سی پیک اور قرضے
انہوں نے اس تاثر کی نفی کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ہے اور کہا کہ پاکستان پر قرضہ ضرور ہے، لیکن اس میں چین کا حصہ بہت کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی بیشتر شرائط پر عملدرآمد کر چکے ہیں لیکن اس ادارے کا شریک چیئرپرسن بھارتی نمائندہ ہے اور بھارت پہلے ہی کہ چکا ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کے لئے ہر ممکن وسائل استعمال کرے گا۔ پاکستان نے اس حوالے سے اپنے تحفظات اظہار کردیا ہے لیکن ادارے کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا
ایمنسٹی اسکیم کا اصل مقصد
پاکستان میں متوقع ایمنسٹی اسکیم پر ایک سوال پر پاکستان کے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس اسکیم سے پاکستان کی معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس اسکیم کا مقصد معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہے کیونکہ جدید معاشی قوانین کے مطابق ملکی معیشت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ مکمل دستاویزی شکل میں ہو۔ اس سلسلے میں ضروری اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہر نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑتا ہے۔ ہم اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے کر استحکام دے سکتے ہیں اور نئی حکومت یہی کچھ کرنے جا رہی ہے۔