پاکستان کے صوبے پنجاب میں کرونا وائرس کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ وبا پنجاب کی جیلوں میں تک بھی پہنچ گئی ہے اور حکام کے مطابق اب تک مختلف جیلوں میں قید 50 قیدیوں میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔
حکام کے مطابق لاہور کی کیمپ جیل میں 24 مارچ کو کرونا وائرس کے پہلے مریض کی نشاندہی ہوئی تھی۔
بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر مریضوں کے علاج کے لیے لاہور کی کیمپ جیل میں 100 بستروں پر مشتمل اسپتال بھی فعال کر دیا گیا ہے۔
صوبہ پنجاب میں اب تک 2 ہزار سے زائد مریضوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ 15 افراد اس وبا سے ہلاک ہوئے ہیں۔ پنجاب میں کل 42 جیلیں ہیں، جن میں قیدیوں کی تعداد لگ بھگ 46 ہزار کے قریب ہے۔
محکمہ جیل خانہ جات کے ترجمان، عامر خواجہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پنجاب کی تمام جیلوں میں قرنطینہ سینٹرز بنا دیے گئے ہیں اور ہر نئے آنے والے قیدی کو 14 روز کے لیے قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔
عامر خواجہ نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے چھ اپریل تک لاہور کی ڈسٹرکٹ جیل میں 334 قیدیوں کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے، جن میں سے 182 ٹیسٹ نتائج موصول ہو چکے ہیں۔
عامر خواجہ کے بقول، ان موصول شدہ نتائج میں 50 ٹیسٹ مثبت اور 132 منفی آئے ہیں جب کہ بقیہ 152 کے نتائج کا انتظار ہے۔
محکمہ جیل خانہ جات کے ترجمان نے مزید بتایا کہ پنجاب کی تمام جیلوں میں جراثیم کش اسپرے کیا جا رہا ہے۔ جیلوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کو فیس ماسک اور دیگر ضروری اشیا مہیا کردی گئی ہیں۔ قیدیوں کے لیے ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی لانے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسروں کی ٹیمیں جیلوں کے دورے کرتی ہیں۔
قیدیوں کی رہائی اور عدالتی احکامات
اقوام امتحدہ کی طرف سے قیدیوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق خبردار کیے جانے کے بعد اسلام آباد، لاہور اور سندھ ہائی کورٹ نے سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ماہ ان فیصلوں پر عمل درآمد روکنے اور رواں ماہ ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قیدیوں کی رہائی روکنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے رہا کیے گئے قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں 55 سال سے زائد عمر کے قیدیوں کی مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔ جس کا اطلاق ماضی میں کریمنل ریکارڈ نہ رکھنے والے مجرمان پر بھی ہو گا۔ عدالت نے معمولی جرائم میں قید خواتین اور بچوں کو بھی رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
پاکستانی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی
پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘جسٹس پروجیکٹ آف پاکستان’ (جے پی پی) کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی ہیں۔
پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھے جانے کی وجہ سے قیدیوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
جے پی پی کے مطابق، پاکستان بھر میں موجود 114 جیلوں میں لگ بھگ 57 ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے، جبکہ ان جیلوں میں 77 ہزار سے زائد قیدی رکھے گئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کی جیلوں میں لگ بھگ 25 ہزار ایسے قیدی ہیں۔ جو سزا یافتہ ہیں۔ 48 ہزار ملزمان ایسے ہیں جن کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
SEE ALSO: پنجاب کی جیلوں میں گنجائش سے پچاس فی صد زیادہ قیدیجے پی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں 1500 قیدی ایسے ہیں، جن کی عمریں 60 سال سے زیادہ ہیں اور وہ کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
اِن عمر رسیدہ قیدیوں میں سب سے 807 قیدی پنجاب کی جیلوں میں ہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں 2400 ایسے قیدی ہیں جو مختلف وبائی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کے کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے خدشات زیادہ ہیں۔
جے پی پی کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر سارہ بلال کا کہنا ہے کہ اگر جیلوں میں یہ وبا پھوٹ پڑی تو اسے کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اُن کے بقول جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد کم اور نئے قیدیوں کے حوالے سے حکمت عملی طے کرنا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ضروری ہے۔
ان کے بقول، دنیا کے جن ممالک میں گنجائش سے زیادہ قیدی جیلوں میں رکھے گئے ہیں، وہ ممالک قیدیوں کو رہا کر رہے ہیں۔
سابق وزیر داخلہ اور ریٹائرڈ آئی جی پنجاب شوکت جاوید کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں قیدی کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شوکت جاوید نے بتایا کہ اس وقت جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے بقول معمولی جرائم اور جرمانوں کے باعث قید مجرموں کو فوری رہا کر دینا چاہیے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں رہا کیے جانے والے قیدی
وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے دنیا کے کئی ممالک میں قیدیوں کو جیلوں سے رہا کیا جا رہا ہے۔
ایران نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے 85 ہزار قیدی رہا کر دیے ہیں جبکہ ترکی نے 10 ہزار قیدی رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے ہمسائیہ ملک افغانستان نے 10 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جن میں خواتین، بیمار اور 55 سال سے زائد عمر رسیدہ قیدی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ چار ہزار، انڈونیشیا 34 ہزار اور سری لنکا 29 ہزار قیدیوں کو رہا کر رہا ہے۔