پنجاب حکومت نے سانحہ مری کے دوران غفلت برتنے پر کمشنر راولپنڈی سمیت 15 افسران کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ وزیرِ اعلٰی پنجاب کے اس اقدام پر جہاں عوامی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ وہیں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ان افسران کے خلاف قانون کے مطابق انضباطی کارروائی بھی ہونی چاہیے۔
خیال رہے کہ سانحہ مری کے بعد پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے وزیرِ اعلٰی پنجاب کو اپنی رپورٹ پیش کر دی تھی جس کے بعد بدھ کو وزیر اعلٰی نے ایک پریس کانفرنس میں 15 انتظامی افسران کو معطل اور عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔
جن افسران کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا گیا، اُن میں کمشنر راولپنڈی ڈویژن، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، سی سی پی او راولپنڈی، اسسٹنٹ کمشنر مری سمیت دیگر افسران شامل ہیں۔
انکوائری رپورٹ میں کیا تھا؟
حکومتی ذرائع کے مطابق سانحہ مری کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق افسران برف کے طوفان کی شدت کو سمجھ ہی نہیں سکے اور اُنہوں نے صورتِ حال کو سنجیدہ نہیں لیا۔
ذرائع کے مطابق افسران کو اُن کے محکموں کی جانب سے شدید برف باری کی اطلاعات دی گئی تھی۔ لیکن اُنہوں نے اِس بات کو سنجیدہ نہیں لیا اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔
افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟
بدھ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار نے کمشنر راولپنڈی ڈویژن کو عہدے سے ہٹا کر اُن کی خدمات وفاقی حکومت کے سپرد کر دیں۔
ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، اسسٹنٹ کمشنر مری، سٹی پولیس افسر راولپنڈی، اے ایس پی مری کو اِن کے عہدوں سے ہٹا کر ان کی خدمات بھی وفاقی حکومت کے سپرد کر دی گئی ہیں۔
عثمان بزدار نے کہا کہ مذکورہ افسران کو معطل کرنے اور انضباطی کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
اِسی طرح سی ٹی او راولپنڈی، ڈی ایس پی ٹریفک، ایس ای ہائی ویز سرکل ٹو راولپنڈی، ایکسین ہائی وے راولپنڈی، ایکسین ہائی وے میکینکل راولپنڈی، ایس ڈی او ہائی وے میکینکل مری، ڈویژنل فارسٹ آفیسر مری کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر مری، انچارج مری ریسکیو 1122، ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے پنجاب کو بھی معطل کر دیا گیا ہے اوران سب کے خلاف انضباطی کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
یاد رہے حکومتِ پنجاب نے سانحہ مری کی وجوہات اور ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کی سربراہی میں ہائی لیول انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
کمیٹی کو مختلف سوالات کے جوابات جاننے تھے جن میں ایک سوال یہ بھی شامل تھا کہ محکمۂ موسمیات کی وارننگ کے باوجود جوائنٹ ایکشن پلان کیوں نہیں تیار کیا گیا؟
کیا تمام سیاحوں کے لیے ایڈوائزری جاری کی گئی تھی یا کوئی وارننگ دی گئی تھی؟ مری کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے گئے؟
کیا مری کی طرف آنے والی گاڑیوں کو گنا گیا اور جب گاڑیاں بڑھ گئی تو ان کو روکا کیوں نہیں گیا؟
کیا کرائسس کے لیے پلان ترتیب دیا گیا تھا؟ کیا کوئی کنٹرول روم بنایا گیا تھا؟ کیا لوکل ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کے ساتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے رابطہ قائم کيا گیا؟
Your browser doesn’t support HTML5
ريسکيو آپریشن کتنی حد تک کامیاب رہا؟ کتنی گاڑیوں کو نکالا گیا؟ اس سارے کرائسس میں کیا کمی اور کوتاہیاں کن کن افسران کی تھی؟
انکوائری کمیٹی کو سات روز میں اپنی رپورٹ جمع کرانی تھی۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس شوکت جاوید سمجھتے ہیں کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات بتاتی ہیں کہ کن افسران کی غفلت تھی۔ جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا اور لوگوں کی جانیں گئیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق آئی جی پولیس نے کہا کہ جن افسران کی غفلت تھی، اُن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
شوکت جاوید کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیٹی نے اِس بات کا تعین کرنا تھا کہ برف کے طوفان کی خبروں کے باوجود سڑکوں کو صاف کیوں نہییں رکھا گیا۔ ساری گاڑیاں ایک ہی جگہ کیوں کھڑی رہیں؟
اُنہوں نے مزید کہا کہ برف ہٹانے والی گاڑیوں میں ڈرائیور نہیں تھے۔ اُن میں پیٹرول یا ڈیزل نہیں تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ جب افسران اِس طرح کی غفلت کریں گے تو اُن کے خلاف کارروائی تو کی جائے گی۔
رپورٹ میں افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی تو سفارش کی گئی ہے، لیکن کسی بھی افسر کے خلاف مجرمانہ کارروائی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں اِس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ 23 افراد کی ہلاکت کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کرایا جائے گا یا نہیں۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں وزیرِ قانون پنجاب راجہ بشارت اور ترجمان پنجاب حکومت خسان خاور سے رابطہ کیا تو راجہ بشارت دستیاب نہیں ہو سکے جب کہ حسان خاور نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
دوسری طرف پنجاب حکومت نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہٹائے جانے افسران کی جگہ نئے افسروں کی تعیناتی کر دی ہے۔
گریڈ 20 کے افسر نورالامین مینگل کو کمشنر راولپنڈی ڈویژن تعینات کر دیا گیا ہے۔ اِسی طرح فاروق طاہر کو ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور ہمایوں بشیر تارڑ کو چیف پولیس افسر (سی پی او) راولپنڈی تعینات کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ سات جنوری کو سیاحتی مقام مری میں برفانی طوفان میں پھنس کر 23 سیاح ہلاک ہو گئے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔