رسائی کے لنکس

مری واقعہ: ’بنیادی سہولیات کی کمی سے اکثر سیاحوں کو رات گاڑیوں میں گزارنی پڑتی ہے’


ٹور آپریٹر علی انور کا کہنا ہے کہ مری اور راولپنڈی کی اپنی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مری جیسا علاقہ ان کے لیے بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں جب ملک کے میدانی علاقوں سے لوگ مری جیسے علاقوں کا رُخ کرتے ہیں تو مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں۔
ٹور آپریٹر علی انور کا کہنا ہے کہ مری اور راولپنڈی کی اپنی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مری جیسا علاقہ ان کے لیے بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں جب ملک کے میدانی علاقوں سے لوگ مری جیسے علاقوں کا رُخ کرتے ہیں تو مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں۔

پاکستان میں سیر و تفریح کے لیے مقبول مقام مری میں شدید برف باری کے باعث سڑکوں پر پھنسنے والی گاڑیوں میں ہلاکتوں کی تعداد 22 تک پہنچ گئی ہے۔ سیکڑوں افراد اب بھی پہاڑی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے اور شاہراہیں کلیئر کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔

سرکاری حکام کے مطابق سیاح برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے پاکستان کے دور دراز علاقوں سے مری کا رخ کرتے ہیں۔

جمعہ کو بھی سیاحوں کی بڑی تعداد برف بری میں موجود تھی تاہم جمعے اور ہفتے کی شب ہونے والی شدید برف باری کے باعث ہزاروں گاڑیاں مری میں پھنس گئیں اور شدید سردی کے باعث دو درجن کے قریب افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہلاک افراد میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

پاکستان میں سیاحت کی صورتِ حال

ملک کی معیشت کے لیے سیاحتی سرگرمیوں کا فروغ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ حکومتیں اس شعبے کی ترقی کے لیے وعدے اور دعوے کرتی رہی ہیں۔

موجودہ اور ماضی کی حکومتیں یہ کہتی رہی ہیں کہ انہوں نے سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ البتہ ٹوور آپریٹرز اور سیاحتی مقامات کا رخ کرنے والے افراد سہولیات کی کمی کی شکایات کرتے ہیں۔

سیاحتی مقامات پر پہنچنے کے لیے اگرچہ کئی جگہ سڑکوں کی حالت خراب ہوتی ہے لیکن جیپ اور دوسری بڑی گاڑیوں کی مدد سے سیاح ان مقامات تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

مری میں شدید برف باری کے بعد کیا صورتِ حال بنی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:01 0:00

البتہ سیاح کہتے ہیں کہ ان سے من مانے کرائے لیے جاتے جب کہ ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس بھی منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔

انفراسٹرکچر کی کمی

ٹور آپریٹر علی انور کا کہنا ہے کہ مری اور راولپنڈی کی اپنی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مری جیسا علاقہ ان کے لیے بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں جب ملک کے میدانی علاقوں سے لوگ مری جیسے علاقوں کا رُخ کرتے ہیں تو مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے علی انور نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے نجی اداروں کو شامل حال کرے۔ ہوٹل انتظامات، ٹریفک پلان اور برف باری کے بعد سڑکوں پر موجود برف کو ہٹانے کے لیے مشینری بھی بر وقت مہیا کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سیاحتی شعبے میں ان تمام بنیادی ضروریات کی کمی ہے جس کی وجہ سے اکثر اوقات شہریوں کو رات اپنی گاڑیوں میں مجبوری کے تحت گزارنا پڑتی ہے۔

سیاحت کے بارے میں معلومات کی کمی

گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے ترجمان احسن حمید ٹور آپریٹر علی انور سے اتفاق کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے سیاح پہاڑی علاقوں کا سفر کرنے سے قبل احتیاطی تدابیر کا خیال نہیں رکھتے۔

احسن حمید کے مطابق مری میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ انہی بنیادی ضروریات کی کمی کی وجہ سے رونما ہوا۔

گاڑی کے پہیوں پر زنجیر

ماہرین کا کہنا ہے کہ برف باری والے علاقوں کی جانب رُخ کرتے ہوئے گاڑی کے پہیوں کے لیے زنجیر ساتھ رکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ ضرورت کے وقت اسے برف والے راستے میں پہیوں کے ساتھ باندھا جا سکے۔

ماہرین کے مطابق اس کے علاوہ گاڑی کے ٹائروں میں کم ہوا رکھنی چاہیے اور یقینی بنایا جائے کہ گاڑی کا ٹینک پیٹرول سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وافر مقدار میں خشک خوراک اور گرم ملبوسات ساتھ رکھنے چاہئیں۔

مری میں ہوٹل کم سیاح زیادہ

مری کے ڈی ایس پی ٹریفک محمد اجمل ستی کے مطابق مری میں چھوٹے اور بڑے کُل 244 ہوٹل ہیں۔ گزشتہ تین دنوں کے دوران ایک لاکھ 55 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ تر ٹریفک پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں جام ہوئی۔

مری میں ہونے والی حالیہ اموات پر انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ اموات گاڑی میں ہیٹر کھلا چھوڑنے کے باعث کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہونے سے ہوئی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تمام مشینری روڈ کھولنے کے لیے سرگرم عمل ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ جلد ہی تمام ٹریفک کھول دی جائے گی۔

گلیات میں صورتِ حال

گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ گلیات میں تقریباً 140 ہوٹل ہیں جو تمام بھرے ہوئے ہیں۔

مری میں شدید برف باری، 20 سے زائد سیاح ہلاک
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:59 0:00

انہوں نے کہا کہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے جمعے سے ہی باقی ماندہ سیاحوں کے آنے پر پابندی لگا دی تھی۔

ان کے بقول گلیات کے ہوٹل مالکان کو تاکید کی گئی تھی کہ باہر تمام راستوں کی بندش کے باعث سیاحوں کو ہوٹل کے اندر ہی تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔

احسن حمید کے مطابق ہفتے تک گلیات میں 25 ہزار کے قریب گاڑیاں موجود تھیں اور انتظامیہ سڑکوں کو کلیئر کرانے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کو حفاظت کے ساتھ باہر نکالنے کے بھی انتظامات میں مصروف رہی۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی عروج جمال کہتی ہیں کہ انہوں نے سفر پر نکلنے سے قبل تمام تر احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنا سفر ترتیب دیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ بدھ کو لاہور سے نتھیا گلی کا رُخ کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جمعرات کے روز محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق نتھیا گلی میں چار فٹ تک برف باری ریکارڈ کی گئی جس کی وجہ سے انہوں نے آگے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

عروج جمال نے کہا کہ نتھیاگلی کے جس ہوٹل میں انہوں نے قیام کیا ہوا تھا وہاں جمعے کی صبح بجلی چلی گئی تھی۔ شام تک بجلی نہ آنے کے آثار کے باعث انہوں نے اپنے سات سالہ بچے کی خاطر ہوٹل تبدیل کرنے کا ارادہ کیا۔

ان کے بقول انہیں نئے ہوٹل میں تمام سہولیات مل رہی ہیں۔ البتہ چار فٹ برف پڑنے کے باعث تمام راستے بند ہیں اور گاڑیاں برف سے ڈھک گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ تاحال ہوٹل میں ہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG