امریکہ کے وفاقی پراسیکیوٹرز کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کے دوران منتخب نمائندوں کے قتل کی سازش کے الزام سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
وفاقی پراسیکیوٹرز نے گزشتہ ہفتے دعوی کیا تھا کہ جس دن صدر ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر چڑھائی کی تھی اسی روز منتخب نمائندوں کو قتل کرنے کی سازش بھی کی گئی تھی۔ البتہ جمعے کو اس حوالے سے ہونے والی تفتیش کے سربراہ نے بیان دیا ہے کہ ابھی تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے۔ اس بارے میں براہِ راست ثبوت تاحال نہیں ملا۔
منتخب نمائندوں کے قتل کی سازش کا الزام جمعرات کو اس وقت سامنے آیا تھا جب مظاہرین میں سے ایک فرد جیکب چانسلے کے خلاف عدالتی کارروائی جاری تھی۔
پراسیکیوٹرز نے عدالت کو لکھے گئے میمو میں کہا کہ شواہد موجود ہیں اور یہ چانسلے کے بیان اور عمل سے بھی ظاہر ہے کہ مظاہرین حکام کو پکڑ کر قتل کرنا چاہتے تھے۔
پراسیکیوٹرز نے عدالت سے استدعا کی کہ چانسلے کو رہا نہ کیا جائے۔ لیکن بعد ازاں عدالت کی کارروائی کے دوران ایک اور پراسیکیوٹر ٹوڈ الیسن نے میمو سے یہ سطر نکال دی تھی۔
ٹوڈ الیسن کا کہنا تھا کہ یہ بات اگرچہ چانسلے کے متعلق تو درست ہے۔ مگر پراسیکیوٹر عدالت کو گمراہ نہیں کرنا چاہتے اور اس ہٹائی گئی سطر کی بنا پر چانسلے کی قید نہیں چاہتے۔
واضح رہے کہ جمعے کو ایک اور جج نے چانسلے کو رہا کرنے سے انکار کیا تھا۔
جمعے کو ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے اٹارنی جنرل مائیکل شیورن نے یہ دعویٰ واپس لیتے ہوئے کہا کہ اس بات کا کوئی براہِ راست ثبوت موجود نہیں ہے کہ وہاں ہدف بنا کر قتل کرنے والے گروہ موجود تھے۔
مائیکل شیرون کا کہنا تھا کہ کیسز اور ملزمان کی بڑی تعداد کی وجہ سے شاید پراسیکیوٹرز کے درمیان کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی۔
پراسیکیوٹرز نےجمعرات کو ایک اور ملزم، جو ایئر فورس کے سابق ملازم ہیں، کے بارے میں بھی ایسا ہی شبہہ ظاہر کیا تھا۔ کیوں کہ ان کے پاس سے ہاتھوں کو باندھنے والے پلاسٹک کے پٹی نماں زیپ ٹائی ملی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
چانسلے کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی تصویر نہیں دیکھی جس میں چانسلے کا عمل خطرناک ہو۔ ان کے بقول وہ وہاں صرف احتجاج کرنے گئے تھے۔
الیسن نے کہا کہ چانسلے اس دن اپنے عمل پر فخر کا اظہار کر رہے تھے اور وہ بائڈن کی حلف برداری تقریب میں بھی شامل ہونا چاہتے تھے۔
انہوں نے چانسلے کے بارے میں کہا کہ وہ حقیقت سے دور اور سازشی مفروضات پر یقین رکھنے والا شخص ہے۔
بڑے پیمانے پر ہونے والی اس تحقیقات کا دائرہ کئی شہروں پر محیط ہے۔ کیوں کہ کیپیٹل ہل پر چڑھائی کے دن صرف 13 افراد کو گرفتارکیا گیا تھا اور اکثر افراد اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
ایف بی آئی اس تناظر میں تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا مظاہرین میں سے کچھ افراد منتخب نمائندوں میں سے کسی کو اغوا کرنے کی سازش کر رہے تھے۔ اس لیے وہ کچھ مظاہرین کے پاس زپ ٹائی اور پیپر اسپرے کی موجودگی وجہ بتاتے ہیں۔
اگرچہ قتل کی سازش کی سطر تو ہٹا دی گئی لیکن پراسیکیوٹرز اس بیان پر قائم ہیں کہ چانسلے کرسیاں پھلانگ کر اس ڈائس تک پہنچا جہاں سے نائب صدر مائیک پینس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اور اس نے ایک نوٹ لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ کچھ وقت ہی لگے گا مگر انصاف ضرور ہو گا۔
امریکی مجسٹریٹ ڈیبرا فائین نے چانسلے کو ٹرائل شروع ہونے تک جیل بھیج دیا ہے۔
انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ چانسلے کے فرار ہونے کا امکان ہے اور وہ معاشرے کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے لکھا کہ چانسلے ایک ایسی چڑھائی میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوا جس میں تشدد کے ذریعے حکومت بدلنے کی کوشش کی گئی۔