جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ کی آئندہ کارروائی میں شریک نہیں ہو گی۔
قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان کے حلف کے لیے بلائے گئے اجلاس میں شرکت کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس پارلیمنٹ کا نتیجہ عوام کے ہاتھ میں نہ ہو، بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہو، ہمارا کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اس پارلیمنٹ کا حصہ بنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پارلیمنٹ کو عوام کا نمائندہ کم اور اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ زیادہ سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بھی سربراہ تھے۔
اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف پیش ہونے والی تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت قائم ہوئی تھی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت بھی اس حکومت کا حصہ تھی۔
تاہم آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد نہ صرف مولانا فضل الرحمٰن نے انتخابی نتائج میں سنگین دھاندلی کے الزامات عائد کیے بلکہ سابقہ حکومت میں اپنے اتحادیوں سے بھی فاصلہ اختیار کرلیا ہے۔
جے یو آئی (ف) نے پاکستان کے عام انتخابات میں چار نشستوں سے کامیابی حاصل کی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن بھی پشین سے الیکشن جیتنے کے بعد اسمبلی میں پہنچے ہیں۔
SEE ALSO: مولانا فضل الرحمن کا جارحانہ انداز سیاسی چال تھی، جو ناکام رہی: تجزیہ کارعام انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن کو حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش کی تھی مگر جے یو آئی کے سربراہ نے ان کی توقعات کے برعکس جواب دیتے ہوئے، اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دیا تھا۔
بعدازاں ایک نیوز چینل کو انٹرویو میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے ان سے رابطہ کیا تھا۔
اس بیان کے بعد جے یو آئی کی حریف سمجھے جانی والی جماعت پی ٹی آئی کے ایک وفد نے فضل الرحمٰن سے ملاقات بھی کی تھی جسے سیاسی مبصرین نے انتخابات کے بعد ہونے والی نئی صف بندیوں کی جانب ایک اشارہ قرار دیا تھا۔
اسپیکر اور وزیرِ اعظم کے الیکشن کا بائیکاٹ
نو منتخب اسمبلی کی پہلے اجلاس سے قبل گزشتہ شب بھی پاکسان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت حکومت سازی کے لیے اتحاد تشکیل دینے والی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی لیکن اس ملاقات کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
جمعرات کو اسمبلی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے حزب اختلاف میں بیٹھنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیر اعظم کےانتخاب کے بائیکاٹ بھی اعلان کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ شب مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور استحکامِ پاکستان پارٹی کا وفد ملاقات کے لیے آیا تھا ان سے اچھی گفتگو رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی رہنماؤں سے ذاتی تعلق اور بے تکلفی ہے لیکن ہماری پالیسی ہے کہ ہم ووٹ نہیں دیں گے اور اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی پارلیمنٹ کی اگلی کسی کارروائی میں حصہ نہیں لے گی۔
خیال رہے کہ فضل الرحمٰن گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان تحریکِ انصاف کے سخت ناقد رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی جانب سے بھی انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آئندہ پیدا ہونے والی صورتِ حال میں دونوں جماعتیں قومی اسمبلی میں اپوزشین میں بیٹھیں گی۔