برطانوی عدالت میں باپ اور سوتیلی ماں 10سالہ سارہ شریف کے قتل کے مجرم قرار

10 سالہ سارہ شریف۔

  • سارہ کی لاش 10 اگست 2023 کو ملی تھی، ایک روز قبل عرفان، بینش اور فیصل سارہ کے پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔
  • اس بچی کے جسم پر ہڈیاں ٹوٹنے، جلنے اور دانتوں سے کاٹنے کے نشانات سمیت بہت سے زخم آئے تھے۔
  • سارہ اور اُس کے 13 سالہ بڑے بھائی کی کسٹڈی 2015 سے والد عرفان شریف کے پاس تھی۔
  • چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو کےایکس پر جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ تمام بچے خصوصاََ سارہ کا سب سے بڑا 13 سالہ سگا بھائی صدمے کی کیفیت میں ہے۔
  • ان تینوں کو آئندہ منگل کو سزا سنائی جائے گی۔

ایک 10 سالہ برطانوی پاکستانی بچی کے والد اور سوتیلی ماں کو بدھ کے روز اس لرزہ خیز کیس میں اس کے قتل کا قصوروار پایا گیا جس نے برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

42 سالہ عرفان شریف اور 30 سالہ بینش بتول کو سارہ شریف کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا ہے جس کی لاش گزشتہ سال ان کے گھر میں ملی تھی، اس بچی کے جسم پر ہڈیاں ٹوٹنے، جلنے اور دانتوں سے کاٹنے کے نشانات سمیت بہت سے زخم آئے تھے۔

اس کے 29 سالہ چچا فیصل ملک کو بھی لندن کی اولڈ بیلی فوجداری عدالت میں جیوری کی ایک ہفتے کی بحث کے بعد اس کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا مجرم پایا گیا۔

جج نے کہا کہ اس "انتہائی دباؤ والے تکلیف دہ" مقدمے میں سزا اگلے منگل کو سنائی جائے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

برطانیہ میں دس سالہ سارہ شریف کی موت ایک معمہ؟

سارہ 10 اگست 2023 کو لندن کے جنوب مغرب میں ووکنگ میں اپنے بستر پر مردہ پائی گئی تھیں۔ سزا یافتہ خاندان کے تین افراد ایک دن پہلے ہی پاکستان فرار ہو گئے تھے۔

اس کے والد نے اس کی لاش کے پاس ہاتھ سے لکھا ہوا ایک نوٹ چھوڑا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ "میرا مقصد اسے مارنا نہیں تھا۔"

اس کے ایک ماہ بعد برطانیہ کی پولیس نے 10 سالہ سارہ شریف کی موت کی تحقیقات میں پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے دبئی سے برطانیہ پہنچنے والے دو مردوں اور ایک خاتون کو گرفتار کیا ہے۔

عرفان شریف نے شروع میں تمام الزامات سے انکار کیا اور سارہ کی موت کا ذمہ دار بینش بتول کو ٹھہرایا۔

تاہم گزشتہ ماہ انتہائی غم وغصے کا باعث بننے والے اس مقدمے میں جب ملزموں سے جرح کی گئی تو شریف نے، جو ٹیکسی ڈرائیور ہیں، اپنی بیٹی کو قتل کرنے کا اعتراف کیا، لیکن اس پر قائم رہے کہ ان کا مقصد اسے نقصان پہنچانا نہیں تھا۔

بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں ایک مرد کی عمر 41 برس، دوسرے کی 28 برس جب کہ خاتون کی عمر 29 برس بتائی گئی۔

سرے پولیس کا کہا تھا کہ ان تینوں افراد کو پولیس نے قتل کے شبہے میں حراست میں لیا گیاتھا۔

تینوں افراد ستمبر میں پاکستان سے برطانیہ پہنچے تھے

سارہ شریف کی ہلاکت کی تحقیقات میں پیش رفت ہونے کی ایک اُمید اُس وقت نظر آنا شروع ہوئی جب 13 ستمبر کو اس کیس سے جڑے تینوں افراد کی پاکستان سے برطانیہ روانگی سے متعلق اطلاعات سامنے آئیں۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ ثمن خان کے مطابق سیالکوٹ کے ہوائی اڈے سے 13 ستمبر کی صبح دبئی کے لیے روانہ ہونے والی پرواز میں عرفان شریف، بینش بتول اور عرفان ملک بھی سوار تھے۔ ان افراد کی اصل منزل برطانیہ تھی اور دبئی صرف ٹرانزٹ مقام رہا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تینوں افراد کو گیٹ وک ایئر پورٹ پر دبئی سے آنے والی پرواز سے حراست میں لیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جن افراد کو گرفتار کیا گیا ان میں سارہ کے والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا عرفان ملک شامل تھے۔

SEE ALSO: سارہ شریف کے والدین کی گرفتاری کے لیے پنجاب پولیس کے چھاپے، بہن بھائی تحویل میں لے لیے

قتل کی تفصیلات

پولیس کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق سارہ کی لاش 10 اگست کو اس وقت ملی تھی جب برطانوی پولیس کو ایمرجنسی نمبر پر کال کر کے دو بج کر 30 منٹ پر ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر کے ایڈریس پر بُلایا گیا۔

پاکستان کے نمبر سے کال کرنے والے شخص کی شناخت سارہ کے والد عرفان شریف کے طور پر ہوئی تھی۔

مزید تحقیقات کے بعد پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ سارہ کی لاش ملنے سے ایک روز قبل یعنی 9 اگست تک عرفان شریف، بینش بتول اور عرفان سارہ کے پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتے تھے۔ یہ تمام افراد ہنگامی حالت میں ٹکٹ بک کرا کر پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔

سارہ کی موت کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا دائرہ کار برطانیہ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی بڑھایا گیا۔

سارہ شریف کے رشتے دار ۔ پاکستان کی ایک عدالت نے سارہ شریف کے قتل کے سلسلے میں تحقیقات کے لیے اس کے والد عرفان، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا فیصل ملک کو برطانیہ کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔

انٹرپول سمیت دیگر اداروں کی درخواست پر پاکستان میں پولیس نے تینوں مطلوب افراد کے آبائی شہر جہلم میں عرفان شریف کی بہن کے گھر بھی پوچھ گچھ کے لیے چھاپے مارے لیکن کوئی معلومات ہاتھ نہ لگیں۔

پنجاب پولیس کی کئی ہفتوں کی کوشش کے بعد 11 ستمبر کو جہلم میں عرفان شریف کے والد محمد شریف کے گھر سے برطانیہ سے والدین کے ہمراہ آنے والے پانچوں بچے پولیس نے تحویل میں لیے تھے۔

جہلم میں بچوں کے دادا کی کسٹڈی کے لیے درخواست

بچوں کے دادا نے ان کی کسٹڈی کے لیے جہلم کی سیشن عدالت میں درخواست دائر کی تھی جسے مسترد کرتے ہوئے عدالت نے بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے حوالے کر دیا تھا۔ بیورو ان بچوں کو لاہور منتقل کر چکا ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو کی چیئر پرسن سارہ احمد نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ بیورو نے بچوں کی رہائش کا خاص انتظام کیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر جاری بیان ان کا کہنا تھا کہ تمام بچے خصوصاََ سارہ کا سب سے بڑا 13 سالہ سگا بھائی صدمے کی کیفیت میں ہے۔ اس لیے جب تک بچوں سے متعلق نئے عدالتی احکامات نہیں آ جاتے تب تک بچوں کی ذہنی و جسمانی حفاظت چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی ذمہ داری ہے۔

سوشل میڈیا پر سارہ احمد کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں بچوں کو بیورو میں موجود جھولوں پر وقت گزارتے بھی دکھایا گیاتھا۔

دوسری جانب سرے پولیس نے سارہ سے جڑی معلومات حاصل کرنے کے حوالے سے مہم بھی شروع کی تھی۔

SEE ALSO: سارہ شریف کیس: والدین کی گرفتاری کے بعد سوالات کے جواب مل پائیں گے؟

سرے پولیس کی ویب سائٹ پر سارہ شریف کیس سے متعلق تمام معلومات ایک صفحے پر پڑھی جا سکتی ہیں جس میں پولیس نے اپیل کی کہ اس کیس کی کوئی بھی معلومات غیر اہم نہیں ہے، اگر کسی کے پاس کوئی ایسی معلومات ہیں جو تحقیقات میں مدد کرسکتی ہے تو پولیس سے رابطہ کیا جائے۔

پولیس کو ابتدائی طور پر ملنے والی معلومات سے پتا چلا تھا کہ عرفان شریف ان کی اہلیہ اولگا کی علیحدگی کے بعد سارہ اور اُس کے 13 سالہ بڑے بھائی کی کسٹڈی 2015 سے والد عرفان شریف کے پاس تھی۔

پڑوسیوں نے سارہ شریف کو گھر پر چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتے بھی دیکھا تھا جب کہ وہ چھ ماہ سے اسکول بھی نہیں جارہی تھی۔

اسکول چھوڑنے سے چند دن قبل سارہ کی ہم جماعت نے اُس کے چہرے پر زخم کے نشان دیکھے تھے۔ پوچھنے پر سارہ نے اُسے بتایا تھا کہ وہ سائیکل سے گر گئی تھی۔

سارہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ 15 اگست کو سامنے آئی تھی جس کے مطابق موت کی وجوہات تو سامنے نہیں آئیں البتہ رپورٹ میں یہ انکشاف ضرور ہوا تھا کہ بچی کے جسم پر شدید چوٹیں موجود تھیں جو ممکنہ طور پر مُستقل اور طویل مُدت کے دوران انہیں لگی تھیں۔

اسی دوران پاکستان میں ایک ماہ سے زائد روپوش رہنے والے سارہ کے والد اور سوتیلی والدہ کی جانب سے پانچ ستمبر کو ایک ویڈیو بیان بھی منظر عام پر آیا تھا۔

اس تمام واقعے کے بعد اپنے اس پہلے عوامی ردِ عمل میں بینش بتول نے کہا تھا کہ وہ برطانوی حُکام کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہیں اور اُنہوں نے سارہ کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا تھا۔