قومی بچت اسکمیوں میں سرمایہ کاری، کالعدم تنظیموں و وابستہ افراد کی نشاندہی کا فیصلہ

فائل

پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے اور دہشت گردی کی فنانسنگ کو روکنے کے لیے ملک بھر میں قومی بچت اسکمیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے کالعدم تنظیموں اور ان سے وابستہ افراد کی نشاندہی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس مقصد کے لیے قومی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کرنے والے 40 لاکھ پاکستانی افراد کی چھان بین کی جائے گی۔

اس سلسلے میں وزارت خزانہ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق نیشنل سیونگ منی لانڈرنگ اینڈ کاونٹر ٹیررازم رولز 2019 جاری کر دیے گئے ہیں۔

وزارت خزانہ کے مطابق، تمام سرمایہ کاروں کی چھان بین کے لیے تین کیٹگریز بنائی جا رہی ہیں جنہیں ہائی رسک، مڈل رسک اور لو رسک کا نام دیا گیا ہے۔ ان میں سے ہائی رسک کیٹیگری کی تفصیلی چھان بین کی جائے گی۔

حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ نئی قومی بچت سکیموں کو بناتے وقت ان کے ذریعے منی لانڈرنگ یا دہشتگردی فنڈز جمع کرنے کو روکا جائے گا۔

قومی بچت سکیموں میں مشکوک سرمایہ کاری کو ثابت کرنا لازم ہوگا۔ وہ تمام سرمایہ کاری جو ہائی رسک کیٹگری میں ہوگی ان کے جائز ذرائع سے حاصل ہونے کے بارے میں ثبوت فراہم کرنا ہونگے، بصورت دیگر ان اکاونٹس کو حکومت عبوری طور پر ضبط کرکے ان کے سرمایہ کاروں کو صفائی کا موقع فراہم کرے گی۔

ان اکاؤنٹس کے مالکان کے خلاف کارروائی کے لیے مشکوک اکاونٹس کی معلومات فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو فراہم کی جائیں گی۔

رولز کا اطلاق قومی بچت مراکز اور پاکستان پوسٹ آفس کے ذریعے فروخت کی جانے والی بچت سکیموں پر ہوگا۔ ان سکیموں کیلئے کھولے جانے والے بچت اکاونٹس کی سرمایہ کاری کرنے والوں پر ان رولز کا اطلاق ہوگا۔

وزارت خزانہ کے مطابق، بچت سکیموں میں کالعدم تنظیموں، ان سے وابستہ افراد اور اعلیٰ سرکاری و سیاسی شخصیات کی سرمایہ کاری کا سراغ لگانے کیلئے تھرڈ پارٹی کی خدمات حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک کمرشل بینک کو تھرڈ پارٹی کا لائسینس جاری کر کے انہیں سرمایہ کاری کرنے والوں کی حقیقی شناخت کا ٹاسک دیا جائے گا۔ سرمایہ کاری کرنے والے کے پاس کسی خفیہ فرد کی سرمایہ کاری ہونے کی صورت میں پوشیدہ فرد کی نشاندہی کرائی جائیگی۔ اعلیٰ سرکاری اور غیر سرکاری و سیاسی شخصیات سے تعلقات کی معلومات کے بعد سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے گی۔

جاری کردہ رولز کے مطابق، رقم خواہ کوئی بھی ہو اس کی اطلاع فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو دینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

قومی بچت سکیموں کی سکروٹنی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ کی سربراہی میں نیشنل سیونگ اے ایم ایل، سی ایف ٹی سپر وائزری بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس بورڈ کے ممبران میں سٹیٹ بینک آف پاکستان، ایس ای سی پی، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ شامل ہوں گے، جبکہ جوائنٹ سیکریٹری وزارت خزانہ بورڈ کے سیکریٹری ہوں گے۔

پاکستان میں قومی بچت کی اسکیموں میں سرمایہ کاری

پاکستان میں حکومت اپنے وسائل میں اضافے کے لیے مختلف بانڈز اور سرٹیفکیٹس جاری کرتی ہے جن پر مخصوص مدت کے بعد مختلف شرح سے منافع دیا جاتا ہے۔

ان اسکیموں میں عام طور پر ریٹائرڈ افراد، بیوائیں اور بعض سرکاری ملازمین اپنی بچت جمع کرواتے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والا مخصوص منافع اپنے روزمرہ اخراجات کے لیے استعمال کرتے ہوئے۔ حکومت پاکستان کا نام ہونے کی وجہ سے ان اسکیموں کو محفوظ سمجھا جاتا ہے اور لاکھوں افراد ان اسکیموں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

سٹیٹ بینک کی جانب سے اس حوالے سے جاری اعداد و شمار کے مطابق، قومی بچت کی سکیموں میں گزشتہ مالی سال 225.3 ارب روپے کا نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

مالی سال 2017-18ء میں قومی بچت کی سکیموں میں 48.7 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ یوں ایک سال کے عرصہ میں قومی بچت کی سکیموں میں 176.6 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

سٹیٹ بینک کے مطابق، ڈیفینس سیونگ سرٹیفکیٹ میں 36.3 ارب روپے، سپیشل سیونگ سرٹیفکیٹ میں 33.1 ارب، جبکہ ریگولر انکم سرٹیفکیٹ میں 100.9 ارب روپے کااضافہ ہوا ہے۔ بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ میں 57.5 ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تاہم، سپیشل سیونگ اکائونٹ میں گزشتہ مالی سال کے دوران کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس مد میں منافع میں کمی کا حجم 3.3 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قومی بچت کے تحت دیگر سکیموں میں اضافے کا حجم 16.5 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا ہے۔

سنٹرل ڈائریکٹو ریٹ آف نیشنل سیونگز کے مطابق، یکم جولائی 2019ء سے قومی بچت کی سکیموں پر منافع کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ پر منافع کی شرح 12.47 فیصد سے بڑھا کر 13.1 فیصد، سپیشل سیونگ سرٹیفکیٹ پر سیونگ کی شرح 11.57 سے بڑھا کر 12.90 فیصد اورریگولر انکم سرٹیفکیٹ پر منافع کی شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 12.96 فیصد کردی ہے۔

اسی طرح سیونگ اکائونٹ پر منافع کی شرح 8.5 فیصد سے بڑھا 10.25 فیصد اور بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ و پنشنر بینیفٹ اکائونٹ منافع کی شرح 14.28 فیصد سے بڑھا کر 14.76 فیصد کردی گئی تھی۔

ایف اے ٹی ایف کی ڈیڈلائن قریب

پاکستان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دی گئی گائیڈ لائنز پر عمل درآمد کی کوششیں کر رہا ہے اور حالیہ ایس آر او بھی اسی مقصد کے لیے جاری کیا گیا ہے۔

رواں سال اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر فروری 2020 تک خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اگر فروری 2020 تک پاکستان نے اس حوالے سے تمام شعبہ جات میں خاطر خواہ اقدامات نہ کیے تو ایکشن لیا جائے گا۔ اس ایکشن کے تحت ایف اے ٹی ایف اپنے ممبر ممالک کو کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے مالیاتی اداروں کو پاکستان کے ساتھ کاروباری تعلقات کا جائزہ لینے کا کہیں، پاکستان اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے لیکن پاکستان میں نئی حکومت کے آنے کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ تاہم، پاکستان کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ لیکن، حالیہ دنوں میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور دیگر مسائل کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی تمام سفارشات پر مکمل کام نہیں کر سکا۔ آئندہ دو ماہ کے بعد پاکستان کو دوبارہ ایسی صورتحال کا سامنا ہوگا جہاں ایف اے ٹی ایف ممبران کے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے، جس کے پاکستان کی معیشت پر انتہائی برے اثرات ہو سکتے ہیں۔