دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت روکنے کے اقدامات کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس پیرس میں جاری ہے جس میں پاکستان کے لیے مقرر کردہ اہداف کی عملدرآمد رپورٹ کا جائزہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
چھ روز تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر عملدرآمد کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے، گرے لسٹ سے نکالنے یا اس میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستان کے مالیاتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین پر مشتمل وفد وفاقی وزیر اقتصادی امور حماد اظہر کی قیادت میں ایف اے ٹی ایف اجلاس میں شریک ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ایران اور پاکستان کی جانب سے مالیاتی نظام کے لیے خطرات جیسے اہم معاملات میں پیش رفت پر بات چیت کی جائے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ رواں اجلاس میں جرائم اور دہشت گردی کی معاونت کے لیے رقوم کی ترسیل سے متعلق عالمی کارکردگی اور معاشرے کو پہنچنے والے نقصان میں کمی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
گزشتہ ماہ بیجنگ میں ہونے والے ایشیا پیسیفک ورکنگ گروپ کے اجلاس میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے مقرر کردہ اہداف اور شرائط پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کر دی تھی جس پر رواں اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں دہشت گردوں کی مالی ترسیل روکنے کے لیے موثر اقدمات نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں شامل کیا تھا۔ اس لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کو ایک 'ایکشن پلان' بھی تجویز کیا گیا تھا۔
'پاکستان خود کو بلیک لسٹ سے دور لے گیا'
ماہرین کا ماننا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے تدارک کے لیے اٹھائے گئے موثر اقدامات اور خطے کی صورتِ حال میں مثبت کردار کے باعث پاکستان کو ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ نہیں کرے گا۔ البتہ نگرانی کی فہرست میں بدستور برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی پالیسی پر کسی ترقی یافتہ اور دستاویزی معیشت کے ملک میں تو مکمل عملدرآمد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن غیر دستاویزی معیشت اور ترقی پذیر ملک اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کر سکتے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی غیر دستاویزی معیشت میں یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ رقوم کی ترسیل دہشت گردی کے لیے استعمال ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی تنظیم کو حقیقت پسندانہ اور پاکستانی حکومت کی نیت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ لینا چاہیے۔
اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں پاکستان کو آئندہ اجلاس تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اقتصادی امور کے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ گزشتہ ماہ بیجنگ میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف ایشیا پیسیفک ورکنگ گروپ اجلاس میں 22 میں سے 14 سفارشات پر پاکستان کی پیش رفت کا اعتراف کیا گیا ہے۔
مہتاب حیدر نے کہا کہ اسلام آباد نے گزشتہ ایک سال میں تکنیکی، سفارتی اور سیاسی سطح پر خاصی پیش رفت کی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان خود کو بلیک لسٹ سے دور لے گیا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزرا اکثر اس خدشے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ بھارت ایف اے ٹی ایف کو اسلام آباد کے خلاف سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
'امریکہ پاکستان کی مخالفت نہیں کرے گا'
تسنیم نورانی بھی سمجھتے ہیں کہ عالمی فورم پر حریف ممالک کسی ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خطے کی صورتِ حال کے باعث امریکہ اگر اعلانیہ نہیں تو پس پردہ پاکستان کی حمایت کرنا چاہے گا۔ اور اس کی وجہ افغان امن عمل میں پاکستان کا تعاون ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جاتا ہے تو بھی ایف اے ٹی ایف اقدامات کا جائزہ لیتا رہے گا۔
SEE ALSO: ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی بھرپور حمایت کریں گے: ترک صدرپاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں امریکہ کے سکیریٹری خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کے بعد امید ظاہر کی تھی کہ امریکہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں معاون کا کردار ادا کرے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان کو اس سے قبل 2012 سے 2015 تک گرے لسٹ میں رکھا گیا تھا لیکن انسداد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی قوانین میں سخت اصلاحات سے متعلق قانون سازی کے بعد 2016 میں اسے خارج کر دیا گیا تھا۔