پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنی ایک ٹویٹ میں وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کی ایک رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ڈیوا سروس پر حقائق سے منافی رپورٹنگ کا الزام عائد کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی ٹویٹ میں یہ بھی لکھا کہ اگرچہ فاٹا میں احتجاج کے دوران فائرنگ سے مظاہرین کی ہلاکت پر انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے تاکہ حقائق معلوم کئے جا سکیں مگر فوج کی جانب سے دھرنے کے شرکا کو ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی گئی کہ کسی آرمی افسر کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔
ترجمان پاک فوج نے اپنی ٹویٹ میں اس بات کی بھی ترديد کی کہ احتجاج کرنے والے مظاہرین میں سے کوئی بھی شخص پاک فوج کے اہل کاروں کی گولی کی وجہ سے ہلاک یا زخمی ہوا ہے۔
While an inquiry has been ordered to ascertain facts, no assurance given for any court martial. No one was killed/injured by Forces. @voadeewa keeps up its tradition of false reporting. People of Waziristan are peace loving and value the attained peace. pic.twitter.com/JV5SypbFnl
— Maj Gen Asif Ghafoor (@OfficialDGISPR) August 26, 2018
اس سے پہلے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس نے اپنے ٹوئیٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ میں یہ رپورٹ کیا تھا کہ ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے شمالی وزیرستان میں جاری دھرنا، حکام کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کے بعد ختم کر دیا ہے کہ کیپٹن ضرار، جن پر میران شاہ میں احتجاج کے دوران ایک لڑکے کو گولی مارنے کا الزام ہے، کا کورٹ مارشل کر دیا جائے گا۔
MNA Mohsin Dawar announced an end to North Waziristan’s protest sit-in Sunday following officials assurance to court martial captain Zarar who allegedly killed a boy during a protest. ”You have seen the power of peaceful protest”, he tells the gathering while ending the protest. pic.twitter.com/Ehw3HnNaNW
— VOA DEEWA (@voadeewa) August 26, 2018
ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس ٹویٹ کے بعد محسن داوڑ اور جنرل آصف غفور کے درمیان سخت ٹویٹس کا تبادلہ ہوا۔ محسن داوڑ نے جنرل آصف غفور پر وعدے سے پھر جانے کا الزام عائد کیا۔ محسن داوڑ نے لکھا تھا کہ کیا آپ اپنے وعدے سے پھر جا نے کی روایت کو دہرائیں گے؟ فوج کے ساتھ مذاكرات شروع کرنے کی ہماری یہ واحد شرط تھی کہ فوج کی جانب احتجاج کرنے والے معصوم لوگوں کی ہلاکت پر غلطی کو تسلیم کیا جائے۔ ہم نے مذاكرات ہی تب شروع کئے جب غلطی کو تسلیم کیا گیا۔
And you are keeping your tradition of backtracking. Our one precondition for beginning talks was an admission of guilt from your side, regarding the martyrdom of innocent protestors. We only began talks AFTER we were given that admission of guilt. https://t.co/LvwyjpP1da
— Mohsin Dawar (@mjdawar) August 26, 2018
اس موقع پر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے محسن داوڑ کی ٹویٹ کا جواب دیا اور لکھا کہ نہ ہی فوج اپنے وعدے سے پھری ہے اور نہ ہی فوج گھما پھرا کر بات کرنے کے عادی ہے۔ قوم اور وزیرستان کے عوام کی خدمت میں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ سچ چھپایا نہیں جا سکتا اور محسن داوڑ جلد ہی معاندانہ قوتوں کے خلاف حقائق جان لیں گے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پاک فوج فاٹا میں حاصل کئے گئے امن کو کسی صورت بھی کھونے نہیں دے گی۔
We don’t backtrack. We don’t mince words. There is no guilt in serving this great nation and the brave people of Waziristan. Truth can’t be hidden. And soon you shall see it coming out about all the ‘inimical forces’. We shall not allow anyone to reverse the gains of peace IA. https://t.co/1gDFUFqeiG
— Asif Ghafoor (@peaceforchange) August 26, 2018
محسن داوڑ نے اس پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ آئی ڈی پیز اور عوام پر کرفیو نافذ کرنا قطعا پر امن نہیں ہے اور نہ ہی مظاہرین کو ان کا آئینی حق استعمال کرنے پر مار دینا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ آئینی حقوق مانگنا کسی بھی طریقے سے معاندانہ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سچ تب ہی برآمد ہوگا جب پرتشدد کارروائیوں کی وجوہات کی تفتیش ہو گی۔
There is nothing peaceful about imposing curfews on IDPs & killing protestors exercising their basic rights. There is nothing "inimical" about demanding our rights enshrined in constitution. Truth will come out when causes of militancy will b investigated.https://t.co/V9IhSj0416
— Mohsin Dawar (@mjdawar) August 26, 2018
اس موقع پر ٹوئیٹر پر صارفین اور تجزیہ نگاروں نے اس تبادلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی راہنما بشری گوہر نے ترجمان پاک فوج پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ترجمان پاک فوج کی جانب سے یہ کہنا کہ مظاہرین کی اموات کا باعث پاک فوج کا کوئی اہل کار نہیں ہے تفتیش پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے۔ انہوں نے ترجمان سے سوال اٹھایا کہ کیا میران شاہ میں دھرنا دینے والے پر امن مظاہرین غلط بیانی سے کام لے رہے تھے؟ اور آخر کیوں ان سے حکام نے مذاكرات کئے اور ان کے مطالبات منظور کئے تھے؟
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں الزام عائد کیا کہ پاکستانی میڈیا کو میران شاہ کے دھرنے پر رپورٹنگ نہ کرنے کی ہدایات تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس نے ایسے وقت میں میران شاہ دھرنے کی رپورٹنگ کی جب اسے بلیک آؤٹ کرنے کی پاکستانی میڈیا کو ہدایات تھیں۔
Aren’t you influencing the inquiry by issuing such statement? Are you suggesting #MiranshahSitIn peaceful protesters were lying? Why hold negotiations & agree to their demands? @voadeewa has covered what Pak media was ordered to black out. Media censorship is a serious violation. https://t.co/YnHhhXlalD
— Bushra Gohar (@BushraGohar) August 27, 2018
تجزیہ نگار محمد تقی نے لکھا کہ فوج کے اعلیٰ عہدے دار کو قومی سلامتی کے امور پر تبصرے کے لئے اپنا ذاتی اکاؤنٹ استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔
پیر کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں محسن داوڑ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں مظاہرین ایک فوجی چیک پوسٹ پر پتھراؤ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ محسن داوڑ نے یہ دعویٰ کیا کہ میران شاہ میں مظاہرین پر احتجاج کے دوران ہموزانی چیک پوسٹ سے فائرنگ دیکھی جا سکتی ہے۔
A clip of (Hamzoni) Miranshah Incident, a young boy receiving a bullet fired from the check post can be clearly seen in the video. pic.twitter.com/k6ZuzL01ql
— Mohsin Dawar (@mjdawar) August 27, 2018
تاہم ابھی تک اس ویڈیو پر پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔