’بگھیاں چلانا ہماری روزی روٹی ہے۔ جب گاہک آجاتا ہے، ہم اس کے لئے یہ سواری چلاتے ہیں۔ مگر جب نہیں بھی آتا تو یہیں کھڑے رہ کر گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں‘
کراچی —
بندر روڈ سے کیماڑی، چلی ہے میری 'گھوڑا گاڑی'، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر۔ ۔ ۔کراچی کے پرانے وقتوں کی یاد دلاتا یہ گانا آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
کراچی کی اہم شاہراہ، بندر روڈ پر بننے والے اس گیت کی خصوصی بات یہ ہے کہ اس میں 'گھوڑا گاڑی'، یعنی 'بگھی' کا ذکر ہے۔
یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ اُس زمانے میں بگھیوں کی سواری کتنی عام ہوا کرتی تھی۔
کراچی کی کھلی سڑکوں پر گھوڑا گاڑی کی سواری پر سفر کسی سہانے سفر سے کم نہیں ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے نت نئی گاڑیاں کراچی کی سڑکوں کی زینت بننے لگیں، ان گھوڑا گاڑیوں کی روایت کم ہوتے ہوتے، اب تو ختم ہی ہوگئی ہے۔
یہ بگھیاں اب عام سواری کے بجائے صرف شادی بیاہ اور دیگر تقریبات تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
کراچی کے پرانے علاقے سولجر بازار میں یہ خوبصورت گھوڑا گاڑیاں با آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان بگھیوں کے مالکان سارا سارا دن گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ مگر اب ان کا استعمال محدود ہو جانے کے باعث، ان کا روزگار بھی کچھ اچھا نہیں۔
بگھی چلانےوالے فضل امان نے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ سے گفتگو میں بتایا کہ، ’ایسا لگتا ہے جیسے شادی میں دلہن کی ڈولی اٹھانے کا رواج ختم ہو چکا ہے۔ اسی طرح، شادیوں میں دولہا دلہن کو لےجانے والی ان بگھیوں کا رواج بھی ایک دن ختم ہوجائے گا'۔
ایک وقت تھا جب گھوڑا گاڑیوں کی مانگ بہت تھی۔ لوگ سفر کیلئے اس گاڑی کو ایک اہم گاڑی مانا کرتے تھے۔ مگر، وقت بدلنے سے سب کچھ بدلتا جا رہا ہے۔ اب ان گاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔
بقول فضل امان، ’بگھیاں چلانا ہمارا خاندانی کام ہے۔ اس سے قبل میرے دادا اور پھر والد صاحب یہ کام کرتے تھے۔ اب ان کے بعد میں یہ کام کر رہا ہوں‘۔
جب ہم نے ان گاڑیوں کی اہمیت کو ختم ہوتے ہوئے دیکھا، تو اس کو ایک نیا روپ دینے کیلئے اس میں بجلی کی لائٹیں لگا کر اسے خوبصورت رنگوں سے سجا کر بنوایا؛ اس کو روشنیوں سے مزید خوبصورت بنانے کیلئے اسکے لئے جنریٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اب یہ گھوڑا گاڑیاں شادی بیاہ کی تقریبات میں دولہا دلہن کو لےجانے کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔
ایک شادی کی تقریب کا کرایہ 6 سے 8 ہزار تک ہوتا ہے، جبکہ اگر ان گاڑیوں کی بات کیجائے تو اس کی تیاری میں چار سے پانچ لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔ کیونکہ، اسمیں رنگ برنگی لائٹیں اور خوبصورت ڈیزائننگ اور نقش و نگار سمیت، تیاری میں اسٹیل کا استعمال کیاجاتا ہے، تاکہ یہ گاڑی دیکھنے میں چمکتی ہوئی دکھائی دے اور اسمیں بیٹھنے والے کو کسی 'شاہی سواری' کا پورا لطف ملے۔
اگر اس گاڑی کو مقابلہ کروڑوں کی گاڑی سے بھی کیا جائے، تو شاہی سواری سے اچھی کوئی سواری نہیں لگتی۔
بگھی والے فضل کا کہنا ہے کہ ’یہی وکٹوریا ہے جس میں بیٹھ کر دولہا دلہن اور ان کا خاندان اپنے آپ کو کسی شاہی مہمان سے کم نہیں سمجھتا۔ اس گاڑی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اسمیں شادی کی مووی بھی آسانی سے بنتی ہے اور دیکھنے میں بھی نہایت شاندار دکھتی ہے‘۔
ان گاڑیوں میں خصوصاً سفید رنگ کے گھوڑے استعمال کئےجاتے ہیں، جو دیکھنے میں صاف ستھرے اور خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔
بگھی والے فضل کا کہنا ہے کہ ’ان گھوڑا گاڑیوں کا شادی کی تقریبات میں بھی استعمال بہت کم ہوگیا ہے‘۔ فضل کے مطابق 100 میں سے صرف 20 فیصد لوگ ہیں، جو ان گاڑیوں کو کرائے پر لیتے ہیں۔
گاہکوں کی کمی کے باعث، روزگار میں کمی سمیت اس سواری کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں، فضل نے بتایا کہ، ’اس کی ایک وجہ کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی نت نئی تیز رفتار گاڑیاں ہیں۔ لوگ گھوڑا گاڑی کے بجائے نئے ماڈل کی گاڑیوں میں بارات لےجانا پسند کرتے ہیں‘۔
فضل کے مطابق، اس روایت کے کم ہونے کی ایک وجہ شہر کراچی کے امن و امان کی مخدوش صورتحال بھی ہے۔ کیونکہ، اکثر حالات کی خرابی اور جرائم کی وارداتوں میں اضافے کےباعث لوگ اس 'کھلی' سواری کے بجائے بند گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ، 'بہت سے لوگ تو اسے حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کہاں ہم جانوروں کی گاڑیوں میں بیٹھیں۔ لوگوں کے تاثرات ان گاڑیوں کے حوالے سے اس حد تک بدل گئے ہیں‘۔
’اس کے برعکس، کچھ خاندانی افراد دولہے کو گھوڑی چڑھنے کی روایت پر ان گھوڑا گاڑیوں کا استعمال کرلیتے ہیں‘۔
فضل کا کہنا ہے کہ پچھلے دس بارہ دن سے اس کے پاس کوئی گاہک نہیں آیا۔ پورا مہینہ صرف چند ہی گاہک آتے ہیں۔ جبکہ، کوئی نیا آدمی اس کام کو نہیں کرے گا، کیونکہ اب ان گاڑیوں کی مانگ تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا مستقبل کوئی نہیں۔'
فضل نے بتایا کہ ’پچھلے چند سالوں میں اس کام میں روزگار نہ ملنے کے باعث 3 سے 4 بگھیوں والوں نے اس کام کو ختم کرکے کوئی متبادل کام شروع کردیا ہے۔ اگر اسی طرح کے حالات رہے تو ہمیں بھی ایک دن یہ کام بند کرنا ہڑےگا۔‘
بگھی والے نے مزید کہاکہ، ’اس کام میں مندا ہونےکے باوجود اس کام کو ہم نے 'گھوڑا گاڑی کی روایت' کو زندہ رکھنے اور باپ دادا کے پیشے کو قائم رکھنے کیلئے جاری رکھا ہوا ہے۔‘
ایک اور بگھی چلانےوالے بزرگ شخص غلام رسول نے بتایا کہ، ’اب ان گھوڑا گاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا، کیونکہ اب سی این جی گاڑیوں اور رکشوں کا دور ہے۔ اسلئے لوگ اب سواری میں سفر کے بجائے تیز رفتار سی این جی گاڑیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس لئے، میرے پاس جو گھوڑا ہے وہ میں ان شادی کی بگھیوں والوں کو دیتا ہوں، جب انھیں کام ملتا ہے تو وہ اس گھوڑے کے بدلے میں مجھے کچھ پیسے دیتے ہیں‘۔
ایک اور بگھی والے نے بتایا کہ، ’بگھیاں چلانا ہماری روزی روٹی ہے۔ جب گاہک آجاتا ہے، ہم اس کے لئے یہ سواری چلاتے ہیں۔ مگر جب نہیں بھی آتا تو یہیں کھڑے رہ کر گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔‘
جیسے جیسے وقت ترقی کے نئے موڑ کاٹ کر آگے بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ہی قدیم اور خوبصورت روایتیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔
گھوڑا گاڑی کی ان شاہی سواریوں کے مالکان آج بھی اس روایت کو زندہ رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اگر انھیں روزگار میسر نہ آیا تو واقعی ایک دن کراچی کی سڑکوں سے بالکل غائب ہو جائےگی۔
کراچی کی اہم شاہراہ، بندر روڈ پر بننے والے اس گیت کی خصوصی بات یہ ہے کہ اس میں 'گھوڑا گاڑی'، یعنی 'بگھی' کا ذکر ہے۔
یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ اُس زمانے میں بگھیوں کی سواری کتنی عام ہوا کرتی تھی۔
کراچی کی کھلی سڑکوں پر گھوڑا گاڑی کی سواری پر سفر کسی سہانے سفر سے کم نہیں ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے نت نئی گاڑیاں کراچی کی سڑکوں کی زینت بننے لگیں، ان گھوڑا گاڑیوں کی روایت کم ہوتے ہوتے، اب تو ختم ہی ہوگئی ہے۔
یہ بگھیاں اب عام سواری کے بجائے صرف شادی بیاہ اور دیگر تقریبات تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
کراچی کے پرانے علاقے سولجر بازار میں یہ خوبصورت گھوڑا گاڑیاں با آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان بگھیوں کے مالکان سارا سارا دن گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ مگر اب ان کا استعمال محدود ہو جانے کے باعث، ان کا روزگار بھی کچھ اچھا نہیں۔
بگھی چلانےوالے فضل امان نے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ سے گفتگو میں بتایا کہ، ’ایسا لگتا ہے جیسے شادی میں دلہن کی ڈولی اٹھانے کا رواج ختم ہو چکا ہے۔ اسی طرح، شادیوں میں دولہا دلہن کو لےجانے والی ان بگھیوں کا رواج بھی ایک دن ختم ہوجائے گا'۔
ایک وقت تھا جب گھوڑا گاڑیوں کی مانگ بہت تھی۔ لوگ سفر کیلئے اس گاڑی کو ایک اہم گاڑی مانا کرتے تھے۔ مگر، وقت بدلنے سے سب کچھ بدلتا جا رہا ہے۔ اب ان گاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔
بقول فضل امان، ’بگھیاں چلانا ہمارا خاندانی کام ہے۔ اس سے قبل میرے دادا اور پھر والد صاحب یہ کام کرتے تھے۔ اب ان کے بعد میں یہ کام کر رہا ہوں‘۔
جب ہم نے ان گاڑیوں کی اہمیت کو ختم ہوتے ہوئے دیکھا، تو اس کو ایک نیا روپ دینے کیلئے اس میں بجلی کی لائٹیں لگا کر اسے خوبصورت رنگوں سے سجا کر بنوایا؛ اس کو روشنیوں سے مزید خوبصورت بنانے کیلئے اسکے لئے جنریٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اب یہ گھوڑا گاڑیاں شادی بیاہ کی تقریبات میں دولہا دلہن کو لےجانے کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔
ایک شادی کی تقریب کا کرایہ 6 سے 8 ہزار تک ہوتا ہے، جبکہ اگر ان گاڑیوں کی بات کیجائے تو اس کی تیاری میں چار سے پانچ لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔ کیونکہ، اسمیں رنگ برنگی لائٹیں اور خوبصورت ڈیزائننگ اور نقش و نگار سمیت، تیاری میں اسٹیل کا استعمال کیاجاتا ہے، تاکہ یہ گاڑی دیکھنے میں چمکتی ہوئی دکھائی دے اور اسمیں بیٹھنے والے کو کسی 'شاہی سواری' کا پورا لطف ملے۔
اگر اس گاڑی کو مقابلہ کروڑوں کی گاڑی سے بھی کیا جائے، تو شاہی سواری سے اچھی کوئی سواری نہیں لگتی۔
بگھی والے فضل کا کہنا ہے کہ ’یہی وکٹوریا ہے جس میں بیٹھ کر دولہا دلہن اور ان کا خاندان اپنے آپ کو کسی شاہی مہمان سے کم نہیں سمجھتا۔ اس گاڑی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اسمیں شادی کی مووی بھی آسانی سے بنتی ہے اور دیکھنے میں بھی نہایت شاندار دکھتی ہے‘۔
ان گاڑیوں میں خصوصاً سفید رنگ کے گھوڑے استعمال کئےجاتے ہیں، جو دیکھنے میں صاف ستھرے اور خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔
بگھی والے فضل کا کہنا ہے کہ ’ان گھوڑا گاڑیوں کا شادی کی تقریبات میں بھی استعمال بہت کم ہوگیا ہے‘۔ فضل کے مطابق 100 میں سے صرف 20 فیصد لوگ ہیں، جو ان گاڑیوں کو کرائے پر لیتے ہیں۔
گاہکوں کی کمی کے باعث، روزگار میں کمی سمیت اس سواری کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں، فضل نے بتایا کہ، ’اس کی ایک وجہ کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی نت نئی تیز رفتار گاڑیاں ہیں۔ لوگ گھوڑا گاڑی کے بجائے نئے ماڈل کی گاڑیوں میں بارات لےجانا پسند کرتے ہیں‘۔
فضل کے مطابق، اس روایت کے کم ہونے کی ایک وجہ شہر کراچی کے امن و امان کی مخدوش صورتحال بھی ہے۔ کیونکہ، اکثر حالات کی خرابی اور جرائم کی وارداتوں میں اضافے کےباعث لوگ اس 'کھلی' سواری کے بجائے بند گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ، 'بہت سے لوگ تو اسے حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کہاں ہم جانوروں کی گاڑیوں میں بیٹھیں۔ لوگوں کے تاثرات ان گاڑیوں کے حوالے سے اس حد تک بدل گئے ہیں‘۔
’اس کے برعکس، کچھ خاندانی افراد دولہے کو گھوڑی چڑھنے کی روایت پر ان گھوڑا گاڑیوں کا استعمال کرلیتے ہیں‘۔
فضل کا کہنا ہے کہ پچھلے دس بارہ دن سے اس کے پاس کوئی گاہک نہیں آیا۔ پورا مہینہ صرف چند ہی گاہک آتے ہیں۔ جبکہ، کوئی نیا آدمی اس کام کو نہیں کرے گا، کیونکہ اب ان گاڑیوں کی مانگ تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا مستقبل کوئی نہیں۔'
فضل نے بتایا کہ ’پچھلے چند سالوں میں اس کام میں روزگار نہ ملنے کے باعث 3 سے 4 بگھیوں والوں نے اس کام کو ختم کرکے کوئی متبادل کام شروع کردیا ہے۔ اگر اسی طرح کے حالات رہے تو ہمیں بھی ایک دن یہ کام بند کرنا ہڑےگا۔‘
بگھی والے نے مزید کہاکہ، ’اس کام میں مندا ہونےکے باوجود اس کام کو ہم نے 'گھوڑا گاڑی کی روایت' کو زندہ رکھنے اور باپ دادا کے پیشے کو قائم رکھنے کیلئے جاری رکھا ہوا ہے۔‘
ایک اور بگھی چلانےوالے بزرگ شخص غلام رسول نے بتایا کہ، ’اب ان گھوڑا گاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا، کیونکہ اب سی این جی گاڑیوں اور رکشوں کا دور ہے۔ اسلئے لوگ اب سواری میں سفر کے بجائے تیز رفتار سی این جی گاڑیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس لئے، میرے پاس جو گھوڑا ہے وہ میں ان شادی کی بگھیوں والوں کو دیتا ہوں، جب انھیں کام ملتا ہے تو وہ اس گھوڑے کے بدلے میں مجھے کچھ پیسے دیتے ہیں‘۔
ایک اور بگھی والے نے بتایا کہ، ’بگھیاں چلانا ہماری روزی روٹی ہے۔ جب گاہک آجاتا ہے، ہم اس کے لئے یہ سواری چلاتے ہیں۔ مگر جب نہیں بھی آتا تو یہیں کھڑے رہ کر گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔‘
جیسے جیسے وقت ترقی کے نئے موڑ کاٹ کر آگے بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ہی قدیم اور خوبصورت روایتیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔
گھوڑا گاڑی کی ان شاہی سواریوں کے مالکان آج بھی اس روایت کو زندہ رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اگر انھیں روزگار میسر نہ آیا تو واقعی ایک دن کراچی کی سڑکوں سے بالکل غائب ہو جائےگی۔