پاکستان کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ گستاخانہ مواد کی روک تھام کے سلسلے میں سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ اور حکومت پاکستان کے درمیان رابطوں میں گزشتہ چند روز کے دوران نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔
وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’فیس بک‘ انتظامیہ قابل اعتراض مواد کے بارے میں حکومت پاکستان کے تحفظات کے حل کے لیے اپنا وفد پاکستان بھیجنے پر رضامند ہو گئی ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وہ وفد کب پاکستان آئے گا۔
وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ کے ساتھ مسلسل رابطے کے لیے فیس بک انتظامیہ کی جانب سے فوکل پرسن بھی نامزد کر دیا گیا۔
وزارت داخلہ کے بیان مطابق ’فیس بک‘ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کو لکھے گئے ایک جوابی مراسلے میں کہا گیا کہ ’’گستاخانہ مواد کے بارے میں حکومت پاکستان کے تحفظات سے آگاہ ہیں اور باہمی مشاورت اور ڈائیلاگ سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔‘‘
ایک روز قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا تھا کہ اگر سوشل میڈیا پر موجود ’گستاخانہ مواد‘ نا ہٹایا گیا تو حکومت سخت ترین اقدامات کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔
جس کے بعد ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی کہ حکومت سوشل میڈیا پر قدغن لگا سکتی ہے۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’بائیٹس فار آل‘ کے شہزاد احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی محدود کرنا یا روکنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
’’ہم کیوں نا (سوشل میڈیا کے) ذمہ دارانہ استعمال کے بارے میں لوگوں کو بتائیں اور اپنے اداروں اور اپنے قوانین کو اس طریقہ سے بنائیں کہ (سوشل میڈیا کے) ذمہ دارانہ استعمال کو تحفظ فراہم کیا جا سکے، شخصی آزادیوں کا تحفظ کیا جا سکے اور اگر کوئی جرم کرتا ہے اس کی بیخ کنی کی جاسکے۔ لیکن اگر آپ صرف کنٹرول کی سوچ سے اگر سوشل میڈیا کے استعمال کے پیچھے جائیں گے تو اس سے نقصان ہو گا اور میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ ہماری حکومت اور انتظامیہ میں (اس وقت) ایک ہی سوچ غالب ہے کہ کسی طریقہ سے اس پلیٹ فارم کو اپنے اختیار اور اپنے کنٹرول میں کیا جائے۔‘‘
سوشل میڈیا پر توہین آمیز کی اشاعت کا معاملہ ان دنوں پاکستان میں موضوع بحث ہے اور اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔
جمعہ کو سماعت کے دوران اسلام آبادی ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 19 سے متعلق آگاہی مہم تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلائے۔
واضح ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت مقدس ہستیوں اور ریاستی اداروں کے بارے میں گستاخانہ یا متنازع بیان کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اگر کسی شخص پر آئین کی اس شق کے تحت جرم ثابت ہو جائے تو اُسے قید یا موت کی سزا دی جا سکتی ہے یا پھر جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کی ایک ٹیم بھی ایسے افراد کی نشاندہی میں مصروف ہے جو سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی تشہیر میں ملوث ہیں۔
جمعہ کو ’ایف آئی اے‘ کے عہدیداروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ اب تک 70 ایسے افراد کی نشاندہی ہو چکی ہے، جن سے اس معاملے میں پوچھ گچھ کی جائے گی تاہم ’ایف آئی اے‘ کے مطابق کسی کو اس سلسلے میں تاحال گرفتار نہیں کیا گیا۔