پاکستان اور افغانستان نے دوطرفہ سیکیورٹی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ پر اتفاق کیا ہے اور اس ضمن میں کمیٹیوں کے قیام کی منظوری بھی دی ہے۔ تاہم افغان امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان پیش رفت کے لیے اعتماد سازی کی مکمل بحالی ضروری ہے جس کے لیے کچھ وقت لگے گا۔
عمران خان کے دورۂ کابل اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔
دونوں رہنماؤں نے امن دشمنوں کی نشاندہی کرنے پر بھی زور دیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان سیکیورٹی معاملات میں پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایک جانب امریکی اور اتحادی افواج کا آئندہ برس افغانستان سے انخلا متوقع ہے اور دوسری جانب افغانستان میں تشدد کی لہر میں نمایاں تیزی آئی ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ عمران خان اور اشرف غنی کی اس سے قبل دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ان کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو ختم کرنے کے لیے پاکستانی وزیرِ اعظم کا دورۂ کابل بہت ضروری تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اعتماد کے فقدان کا ذکر افغان صدر نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان سیکیورٹی کے مسائل پیش رفت میں اہم رکاوٹ ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان نے ایک ایسے وقت میں افغانستان کا دورہ کیا ہے جب دونوں ملکوں میں اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کے خلاف بھارت پر افغان سر زمین استعمال ہونے کا الزام لگایا تھا جسے دونوں ملکوں نے مسترد کر دیا تھا۔
SEE ALSO: عمران خان کا دورۂ کابل، تشدد کے خاتمے کے لیے افغانستان کو تعاون کی یقین دہانیرحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دورۂ کابل کا اہم مقصد دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر مفادات کو زیر بحث لانا تھا اسی لیے وہ اپنے ہمراہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیرِ تجارت عبدالرزاق داؤد اور سینئر حکام کے ساتھ ساتھ خفیہ ادارے (آئی ایس آئی) کے سربراہ جنرل فیض حمید کو بھی ساتھ لے کر گئے۔
اُن کے بقول مذکورہ شخصیات کا عمران خان کے ساتھ کابل کا دورہ کرنا اس جانب اشارہ ہے کہ وہ تجارت، خارجہ امور اور سیکیورٹی کے مسائل کو زیر غور لانا چاہتے تھے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کی مشترکہ کمیٹی بنانے کی بات کی جا رہی ہے جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کریں گی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت عملی طور پر جلد ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
ان کے بقول، "ایسی ایک کوشش پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورۂ کابل کے موقع پر بھی ہوئی تھی اور اس ضمن میں ایک مفاہمتی یادادشت پر بھی دستخط ہوئے تھے لیکن افغانستان میں اس کی شدید مخالفت ہوئی تھی کہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس پاکستانی ایجنسی کے ساتھ معاونت نہیں کر سکتی۔
SEE ALSO: بھارت دہشت گردوں کو فنڈنگ، تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے: پاکستان کا الزامافغان امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو باہمی اختلافات کے ساتھ ساتھ بد گمانیوں کو بھی ختم کرنا ہو گا جس کے بعد ہی خفیہ اداروں کا آپس میں تعاون ممکن ہے۔
سینئر افغان صحافی اور تجزیہ کار عصمت قانع کہتے ہیں کہ افغاستان کے بیشتر عوام گزشتہ چالیس برس سے ملک میں ہونے والے واقعات کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں اور پاکستان کے پاس اب بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات اور روابط استوار کرے۔
ان کے بقول افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا متوقع ہے۔ اس تناظر میں دونوں ملکوں کے پاس اعتماد سازی کا یہ بہترین موقع ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے حوالے سے پوری دنیا نے پاکستان کے کردار کو سراہا تاہم بین الافغان امن مذاکرات کے حوالے سے افغان حکومت کو بہت زیادہ توقعات ہیں اور وہ اس حوالے سے پاکستان کا مزید فعال کردار چاہتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ حال ہی میں دورۂ پاکستان کے موقع پر افغان قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ طالبان کو جنگ بندی پر راضی کریں۔
طالبان کے آئندہ کردار کے حوالے سے رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ طالبان جنگ بندی کے بدلے کیا نئی رعایتیں مانگیں گے۔ اگر امریکہ کی نئی انتظامیہ افغانستان میں فورسز کا قیام بڑھاتی ہے تو پھر طالبان کے ردِ عمل کا انتظار کرنا ہو گا کیوں کہ دوحہ معاہدے کے مطابق مئی 2021 تک امریکہ اور اس کے اتحادوں کو افغانستان سے نکلنا ہو گا۔
SEE ALSO: افغان امن مذاکرات میں سست روی، زلمے خلیل زاد دوبارہ سرگرمکابل میں مقیم سینئر تجزیہ کار اور صحافی صفت صافی کے مطابق افغانستان کا پاکستان سے صرف یہی مطالبہ ہے کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اپنا فعال کردار ادا کرے۔ ان کے بقول ایسا کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی قدریں مشترک ہیں اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ سیاسی، سیکیورٹی یا اقتصادی طور پر مشترکہ کام کرنے میں مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔
اپنی اس دلیل میں وزن ڈالنے کے لیے صفت صافی کہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان چپقلش کا براہِ راست نقصان دونوں ملکوں کو ہی ہوا ہے۔
اُن کے بقول اگر افغانستان میں حالات مزید خراب ہوتے ہیں تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔
تجزیہ کار عصمت قانع کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر افغانستان میں شورش دوام پکڑتی ہے تو اس کا دائرہ کار صرف افغانستان تک محدود نہیں رہے گا۔
عصمت قانع کے مطابق افغاستان میں ایک سوچ یہ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ پاکستان کے خارجہ تعلقات بھارت بشمول خلیجی ممالک سے بھی خراب ہو رہے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اپنی معیشت کو افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں تک بحال کر سکے۔