شام کے خلاف عائد یورپی یونین کی پابندیوں میں مزید توسیع

شام کے خلاف عائد یورپی یونین کی پابندیوں میں مزید توسیع

یورپی یونین نے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے شام کے خلاف عائد اقتصادی اور سفری پابندیوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا ہے۔

جمعہ کے روز سامنے آنے والے اعلان کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے چار مزید شامی کمپنیوں اور سات افراد کے اثاثہ جات منجمد کرتے ہوئے ان کے یورپی ممالک کے سفر پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جس کے بعد پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد کی تعداد 34 ہوگئی ہے جن میں شام کے صدر بشار الاسد بھی شامل ہیں۔

جن افراد کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے ان میں ایرانی فورس 'پاسدارنِ انقلاب' کے تین کمانڈرز بھی شامل ہیں جن پر یورپی یونین نے صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف گزشتہ تین ماہ سے جاری کارروائی میں مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

ان ایرانی شہریوں کی شناخت میجر جنرل قاسم سلیمانی اور بریگیڈیئر کمانڈر محمد علی جعفری کے ناموں سے ہوئی ہے جن کا تعلق 'پاسدارانِ انقلاب' سے ہے جبکہ فورس کی انٹیلی جنس ایجنسی کے نائب سربراہ حسین طیب کا نام بھی نئی فہرست میں شامل ہے۔

یورپی یونین کی جانب سے جن شامی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں تعمیرات سے وابستہ ایک فرم، سرمایہ کاری سے متعلق ایک فنڈ اور دو دیگر کاروباری ادارے شامل ہیں جن پر صدر الاسد کی حکومت کو مالی معاونت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

بعد ازاں جمعہ کی شام یورپی ممالک کے رہنما برسلز میں ہونے والے ایک اجلاس میں ایک قرارداد کی منظوری بھی دیں گےجس میں شامی حکومت کی جانب سے اپنے شہریوں پر "ناقابلِ قبول تشدد" کی مذمت کی جائے گی۔

مجوزہ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ شام "تشدد کے جس راستے " پر گامزن ہے اس نے حکومت کی "قانونی حیثیت پر سوال کھڑے کردیے ہیں"۔