میانمر کا روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی تحقیقات کی اجازت دینے سے انکار

فائل فوٹو

مقامی عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ میانمر کی فوج نے بچوں سمیت تقریبا چھ سو لوگوں کو ہلاک کیا اور سینکڑوں عورتوں کو ریپ کیا اور ان کے گھر اور سامان جلانے کے بعد بے دخل کر دیا۔

میانمر کی ریاستی کاؤنسلر آنگ سان سوچی نے یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کے باوجو د اقوا م متحدہ کو ملک کے مشرق میں اقلیتی مسلم کمیونٹی روہنگیا کے خلاف مبینہ مظالم کی چھان بین کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ بدھ کے روز برسلز میں ایک دورے کے دوران انہوں نے کہا کہ فوج کے ہاتھوں ہونے والے مبینہ مظالم کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔

میانمر سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ شمسیدہ روہنگیا اقلیت کی ایک مسلمان خاتون پناہ گزین ہیں۔ وہ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں ہونے والے جن خوفناک واقعات کو یاد کرتی ہیں ، ان کا ذکر بیسیوں دوسری خواتین نے بھی کیا جو جان بچانے کے لیے سرحد پار کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکی ہیں ۔

بنگالی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد لگ بھگ تین چار سو فوجیوں نے ہمارے گاؤں پر قبضہ کر لیا اور ہماری تمام عورتوں کو گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے ہمارے بچوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور ہمارے گھر کے تمام ساز و سامان کو تباہ کر دیا ۔ اس وقت تین فوجیوں نے مجھے زیادتی کا نشانہ بنایا ۔

یہ مبینہ مظالم روہنگیا کے عسکریت پسندوں کی جانب سے پچھلے سال اکتوبر میں ایک سرحدی چوکی پر حملے کے بعد ہوئے ۔

مقامی عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فوج نے بچوں سمیت تقریبا چھ سو لوگوں کو ہلاک کیا ۔ سینکڑوں عورتوں کو ریپ کیا گیا ۔ اس کے اثرات کے بارے میں حال ہی میں ایک ویڈیو سامنے آئی ہے ۔

برما ہیومن رائٹس کے نیٹ ورک کے کیاؤ ون کہتے ہیں کہ وہ ایسا صرف راکھین صوبے ہی میں نہیں کر رہے۔ انہوں نے ایسا کیرن صوبے میں بھی کیا ہے ۔ وہ ایسا صوبے شان کے ساتھ ساتھ کاچین صوبے میں بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن بین الاقوامی برادری کا رد عمل کہاں ہے ۔ اور رد عمل میں یہ ناکامی صرف متاثرین کی توقعات کو ہی ماند نہیں کر رہی ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ برما کی حکومت ، برمی فوج آئندہ بھی ایسا ہی کچھ کر سکتی ہے ۔

منگل کے روز برسلزکے دورے کے موقع پر میانمر کی ریاستی کونسلر آنگ سان سوچی نے اس پکڑ دھکڑ پر اقوام متحدہ کی زیر قیادت ایک چھان بین کو ایک بار پھر مسترد کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم وہ سفارشات قبول نہیں کریں گے جوراکھین میں دونوں کمیونٹیز میں مزید تقسیم پیدا کریں گی کیوں کہ اس سے ہمیں وہ مسائل حل کرنے میں مدد نہیں ملے گی جو ہر وقت سر اٹھاتے رہتے ہیں ۔ امن کی ایک نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے مظالم کی رپورٹوں سے صرف نظر کرنے سے انکار کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ریپ یا قتل یا آتش زنی یا کسی بھی چیز کے بارے میں الزامات کو کسی بھی طریقے سے نظر انداز نہیں کیا ہے ۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ ان معاملات کو عدالت میں لایا جائے اور مقدمات چلائے جائیں۔

یورپی یونین کی جانب سے میانمر پر اسلحے کی پابندی برقرار ہے ۔ تاہم میانمر کی فوج کے سر براہ من آنگ ہلینگ نے، گزشتہ ہفتے جرمنی اور آسٹریلیا کا دورہ کیا ۔ناقدین کا کہنا ہے کہ یورپ ایک مبینہ جنگی مجرم کی میزبانی کر رہا ہے ۔

برما ہیومن رائٹس نیٹ ورک کے کیاؤون کہتے ہیں ۔

ان کی فوج نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ۔ پھر بھی ایک مہذب دنیا میں ان کا اتنی گرمجوشی سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔

آنگ سان سوچی اگلے ہفتے لندن کا دورہ کریں گی جہاں صوبے راکھین میں ہونے والے مبینہ مظالم کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے ۔