یورپی کمیشن نے پاکستان سمیت 23 ملکوں کو اپنی مرتب کردہ اس مجوزہ فہرست میں شامل کرلیا ہے جنہوں نے، کمیشن کے بقول، انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کے تدارک میں ناکافی اقدامات کیے ہیں۔
یورپی کمیشن کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق اس فہرست کا مقصد دہشت گردوں کو مالی وسائل کی فراہمی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کر کے یورپی یونین کے مالیاتی نظام کا تحفظ کرنا ہے۔
فہرست میں شامل ہونے کے بعد یورپی یونین کے تحت کام کرنے والے بینک اور ادارے ان ملکوں کے صارفین اور مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین کرتے ہوئے مناسب چھان بین اور نگرانی کے لیے مزید اقدامات کریں گے، تاکہ ان ملکوں سے مشتبہ رقوم کی ترسیل کی نشاندہی کی جا سکے۔
یورپی کمیشن کی طرف سے مرتب کی جانے والی فہرست کی توثیق کے لیے یورپی یونین کے رکن ملکوں کے پاس ایک ماہ کا وقت ہے جس میں مزید ایک ماہ کی توسیع ہوسکتی ہے۔ رکن ممالک کثرتِ رائے سے اس فہرست کو مسترد بھی کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین کی کمشنر برائے انصاف ویرا یوروا نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ یہ فہرست مسترد نہیں ہو گی۔
اپنے ایک بیان میں یورپی کمشنر نے کہا ہے کہ یورپی یونین نے دنیا میں انسدادِ منی لانڈرنگ کے لیے ٹھوس معیار مقرر کیے ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ دیگر ملکوں سے غیر قانونی یا غیر اخلاقی ذرائع سے حاصل ہونے والا پیسہ یورپ کے مالیاتی نظام تک نہ پہنچ سکے۔
انہوں نے کہا کہ غیر قانونی یا غیر اخلاقی پیسہ منظم جرائم اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
In Europe, scandal after scandal, many people have become disillusioned about the rules; they have the impression that the rich and the cheaters play a different, more privileged game. No more. We owe it to the citizens if we want to restore their trust in a safe and just Europe.
— Věra Jourová (@VeraJourova) February 13, 2019
ویرا یوروا نے منی لانڈرنگ سے متعلق یورپی یونین کی فہرست میں شامل ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے مالیاتی نظام کی خامیوں کو فوری دور کریں۔
انہوں نے پیشکش کی ہے کہ یورپی یونین خامیوں کو دور کرنے کے لیے ان ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر تیار ہے۔
I encourage the listed countries to fix their strategic weaknesses without delay. It is in everyone%27s interest to have solid rules. My doors remain open & I am ready to assist countries to address our concerns. My aim is to ensure we have safe partners for financial transactions.
— Věra Jourová (@VeraJourova) February 13, 2019
یورپی یونین کی طرف سے بدھ کو جاری کی جانے والی فہرست میں 23 ممالک شامل ہیں جو یونین کے مطابق انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کو روکنے کے مؤثر اقدامات نہیں کر رہے۔
فہرست میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، شمالی کوریا، ایتھوپیا، ایران، عراق، سری لنکا، تیونس، یمن اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ دہشت گروپوں کے مالی وسائل کی روک تھام سے متعلق بین الاقوامی ادارے 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' (ایف اے ٹی ایف) نے بھی گزشتہ سال پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا تھا جو، ادارے کے بقول، انسدادِ دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کر رہے۔
یورپی یونین کی فہرست میں پاکستان کو شامل کرنے پر تاحال اسلام آباد کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن، حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے کئی مؤثر اقدامات کیے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور یورپی کمیشن کے تازہ اقدام کی وجہ سے یورپی یونین میں شامل ملکوں کے ساتھ پاکستانیوں کی تجارت اور مالیاتی لین دین کی چھان بین میں اضافہ ہو سکتا ہے جو کاروباری افراد کے لیے اضافی اخراجات کا سبب بنے گا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے بعد یورپی کمیشن نے بھی پاکستان کو اپنی مرتب کردہ اس مجوزہ فہرست میں شامل کرنا حکومت کے لئے قابل تشویش ہونا چاہئے۔ تاہم، اس سے ملک کی معیشت، سرمایہ کاری، تجارت یا جی ایس پی پلس پراگرام پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر منظور حسین کہتے ہیں کہ یورپی کمیشن کی اس فہرست کا مطلب پابندیاں نہیں ہیں بلکہ اپنے رکن ممالک کے بینکوں کے لئے گائڈ لائن ہے کہ وہ فہرست میں شامل ممالک سے رقوم کی منتقلی اور وصولی پر نظر رکھیں۔
ڈاکٹر منظور کے مطابق پاکستان کا نام چوںکہ پہلے سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ جو کہ انسداد منی لانڈرنگ کے لئے ناقافی اقدامات اٹھانے والے ممالک پر مشتمل ہے یورپی کمیشن کی اس نئی فہرست میں شامل ہونے یا نکل جانے سے پاکستان میں کاروبار، سرمایہ یا برامدات بڑھانے کے لئے یورپی مراعاتی پیکج جی ایس پی پلس پر کوئی زیادہ اثرات نہیں پڑیں گے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور یورپی کمیشن کے تازہ اقدام کی وجہ سے یورپی یونین میں شامل ملکوں کے ساتھ پاکستانیوں کی تجارت اور مالیاتی لین دین کی چھان بین میں اضافہ ہو سکتا ہے جو کاروباری افراد کے لیے اضافی اخراجات کا سبب بنے گا۔
بزنس پالیسی ماہر سید علی کہتے ہیں کہ یورپی کمیشن کی اس فہرست کے قوائد و ضوابط ابھی واضع نہیں جیسے کہ ایف اے ٹی ایف کے ہیں۔ تاہم، اس سے یورپی ممالک سے پاکستان کی طرف رقوم بھیجنا مہنگا بھی ہو جائے گا اور اس میں وقت بھی زیادہ لگے گا۔
سید علی کا کہنا تھا کہ یورپی کمیشن کی انسداد منی لانڈرنگ فہرست پاکستان کا نام آنے سے فوری طور پر پاکستان میں سرمایہ کاری، جی ایس پی پلس یا تجارت پر اثرات نہیں ہوں گے۔ لیکن پاکستان میں یورپی ممالک سے رقوم کی منتقلی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے وسط مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے یورپی یونین کی اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل کرنےکو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ایسے میں جبکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قابل قدر کامیابیاں حاصل کر رہا ہے اور انسداد دہشت گردی اور انسداد منی لانڈرنگ کے حوالے سے متعدد اقدامات اور اصلاحات کر رہا ہے۔
یورپی کمیشن کی اس فہرست کو یورپی پارلیمنٹ کی منظوری درکار ہے۔ یورپی کمیشن کی اس فہرست پر امریکہ سمیت فہرست میں شامل سعودی عرب، پاناما اور دیگر ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جمعرات کے روز حکومت پاکستان کے جاری بیان کے مطابق وفاقی حکومت نے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے سلسلے میں حکمت عملی ترتیب دے دی ہے جو کہ رواں ماہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ پیرس میں ہونے والے جائزہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ ایف اے ٹی ایف حکام کے ساتھ پاکستانے وفد کا اجلاس 17 سے 22 فروری تک پیرس میں منعقد ہو گا جس کی سربراہی سیکرٹری خزانہ کریں گے۔ پاکستانی وفد ایف اے ٹی ایف حکام کو جعلی بینک اکاؤنٹس اور مشکوک بینکنگ ٹرانزیکشن کے خلاف اقدامات سے آگاہ کرے گا۔
یاد رہے کہ دہشت گروپوں کے مالی وسائل کی روک تھام سے متعلق بین الاقوامی ادارے 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' (ایف اے ٹی ایف) نے بھی گزشتہ سال پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا تھا جو، ادارے کے بقول، انسدادِ دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کر رہے۔