ترک وزیرِاعظم کا صدارتی انتخاب لڑنے کا عندیہ

ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ اگر ان کی جماعت نے ہدایت کی تو وہ آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے۔
ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ اگر ان کی جماعت نے ہدایت کی تو وہ آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے۔

گزشتہ ایک دہائی سے ترکی کی وزارتِ عظمیٰ پر براجمان ایردوان 2015ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ترکی کی حکمران جماعت 'اے کے پارٹی' کے آئین کے تحت وزیرِاعظم کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے۔

ترکی کی سیاست میں ان کے اثر و رسوخ اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کار یہ قیاس آرائی کرتے رہے ہیں کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کی مدت مکمل ہونے کے بعد صدر کا انتخاب لڑسکتے ہیں جس کے اختیارات میں اضافے کے لیے وہ کوشش بھی کرتے رہے ہیں۔

جمعرات کو ایک ترک ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں وزیراعظم ایردوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تاحال صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اور جب بھی وہ یہ ارادہ کریں گے تو اس کا اعلان کریں گے۔

ترک وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ اہم عہدوں کے امیدواران کے انتخاب کے لیے ایک مشاورتی نظام موجود ہے جس میں سب سے اہم کردار ان کی جماعت کا ہے۔

ایردوان نے کہا کہ ان کی جماعت انہیں جو بھی ذمہ داری دے گی، وہ اسے پورا کریں گے۔

ترکی کے صدارتی انتخاب میں اب ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور تجزیہ کار اور سیاسی حلقے بے چینی سے منتظر ہیں کہ موجودہ صدر عبداللہ گل اور وزیرِاعظم ایردوان آئندہ امیدوار کے انتخاب کے لیے کس نام پر متفق ہوتے ہیں۔

عبداللہ گل اور طیب ایردوان دونوں ہی کا شمار 2001ء میں قائم کی جانے والی 'اے کے پارٹی' کے بانی رہنماؤں اور دیرینہ ساتھیوں میں ہوتا ہے۔

لیکن گزشتہ برس سے کچھ ایسے اشارے سامنے آتے رہے ہیں جن سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے کہ دونوں رہنماو ٔں کے درمیان بعض اختلافات جنم لینے لگے ہیں۔

ترکی میں صدر کا عہدہ نمائشی نوعیت کا ہے لیکن وزیرِاعظم ایردوان کی حکومت ایک نئے آئین کے لیے رائے عامہ ہموار کر رہی ہے جس میں صدر کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم ایردوان کا صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ بڑی حد تک اس نئے آئین کی منظوری پہ منحصر ہے جس کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آرہا کیوں کہ انتخابات تقریباً سر پر آچکے ہیں۔

اس نئے آئین کے مسودے پر ترکی کی چار بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سخت اختلافات پائے جاتے ہیں جن میں سرِ فہرست تنازع ملک میں پارلیمانی طرزِ حکومت کے بجائے صدارتی نظام متعارف کرانے کی تجویز پر ہے۔