بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ہمارے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہاہے- سائنسدانوں کاخیال ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی خشک سالی،سیلاب اور طوفانوں کی بڑی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ہی ہے-امریکی فلم انڈسڑی کےسب سے بڑے انعام اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہونیوالی ایک دستاویزی فلم کا موضوع بھی زمین کی تبدیل ہوتی ہوئی آب وہوا کے منفی اثرات ہیں
سن کم اپ دراصل پاپائے نیو گنی کے قریب واقع کارٹیٹ جزیرے کی کہانی ہے۔ جہاں فلم میکر جینیفر ریڈ فئیرن کے مطابق رہنے والوں کے پاس اونچے مقامات پر نقل مکانی کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔
فلم پروڈیوسر راکسن سکربے کا کہنا ہے کہ ہم نے تباہی کے کچھ ایسے مناظر فلم بند کئے جو سمندر کی بلند ہوتی سطح ، سمندری طوفانوں کی تعداد میں اضافے اور تازہ پانی کے ذخائر ختم ہونے سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اور پانی کی آلودگی سے کیسے ان کی زرعی زمین ضائع ہو رہی ہے
ارسولو راکووا اسی جزیرے پر پلی بڑھیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ان دنوں میں سمندر آج کل کی طرح بے رحم نہیں تھا۔
سن 2015 تک تمام جزائر پانی میں ڈوب جائیں گے-راکووا 3000 افراد کے ساتھ ملکر وہاں سے نکلنے کی کوششیں کر رہی ہے ۔ نئے گھر کی تلاش میں ہم بھی انکے ساتھ ہیں اور ہم نے کریٹریٹ جزیرے کے بزرگ جان سیلک کے دکھ کو بھی محسوس کیا۔
جان سیلک کہتے ہیں کہ جب میں ایک چھوٹا بچہ تھا تومیرا سب سے پسندیدہ مشغلہ لہروں سے مچھلیاں پکڑنا تھا- لیکن اب میں اس جزیرے اور ان لہروں کو بہت یاد کروں گا ۔ مگر اب میں انہیں سن نہیں سکوں گا۔
ریڈفیرن کے مطابق کریڑیٹ جزیرے کے باسی دنیا کے پہلے ایسے مہاجر ہوں گے جنہیں آب و ہوا نے بے گھر کیا ۔ مہاجرین کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کے مطابق 2050 تک دنیا بھر میں سمندر کی سطح میں اضافہ سے دو کروڑ افراد بے گھر ہوجائینگے - ریڈفیرن کو امید ہے کہ ان کی فلم اس صورتحال کے بارے میں آگہی پیدا کرنے میں مددگارثابت ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ میری فلم لوگوں کو غصہ دلائے ، انہیں غمگین اور مایوس کرے ۔ اور میں چاہتی ہوں کہ انکا غصہ اور مایوسی عمل میں تبدیل ہو جائے۔
سن کم اپ کی ڈائریکڑ کے مطابق انہیں امید ہے کہ ایک خاص موضوع پر بننے والی اس ڈاکومنڑی کی اکیڈمی ایوارڈ کے لئے نامزدگی سے آب وہوا سے ماحولیاتی تبدیلی کی قیمت کے بارے میں بڑے پیمانے پر شعور اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔