دھمکیوں سے نہیں ڈرتا، انجوائے کرتا ہوں: علی گل پیر

'کیسا دیا؟' کی دو چیزیں سب سے اہم ہیں۔ ایک علی گل پیر کے مختلف انداز کے غضب ڈھاتے اور ہنسنے مسکرانے پر مجبور کر دینے والے گیٹ اپس، اور دوسرے، طنزیہ و مزاحیہ شاعری

علی گل پیر ایسے سنگر ہیں جو خود یہ کہتے ہیں کہ 'میں سر میں نہیں گاتا ، ریپ گاتا ہوں۔۔' ان کا ایک نیا گانا 'کیسا دیا؟' سوشل میڈیا پر کامیابی کے نئے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ علی گل پیر کہتے ہیں 'میڈیا سب پر طنز کرتا ہے میں نے 'کیسا دیا؟' کے ذریعے میڈیا پر طنز ہے۔' ۔۔۔یہ مزاحیہ اور طنزیہ انداز لئے ہوئے ہے میڈیا نے اس کا برا نہیں منایا۔ تاہم، علی کہتے ہیں 'وڈیرے کا بیٹا' ریلیز ہوا تو مجھے مرنے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، دوسری قوموں سے پیسے لینے کے الزامات لگے، کئی ہفتوں تک میرا تعاقب ہوتا رہا۔ مگر اب میں ان ’دھمکیوں‘ کو انجوائے کرتا ہوں۔'

”کیسا دیا؟“ کی دو چیزیں سب سے اہم ہیں۔ ایک علی گل پیر کے مختلف انداز کے غضب ڈھاتے اور ہنسنے مسکرانے پر مجبور کردینے والے گیٹ اپس اور دوسرے طنزیہ و مزاحیہ شاعری۔ شاعری میں انہوں نے انڈین پروڈیوسر مہیش بھٹ ، امریکی چینل سی این این اور خاص کر پاکستانی اداکارہ میرا اور ان کی انگریزی کا تذکرہ کیا ہے۔

علی گل پیر نے اپنے اس نئے گانے، میوزک، شاعری اور مستقبل میں ”بریکنگ نیوز میڈیا“ پر کس طرح کا طنز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان سب کا خلاصہ وائس آف امریکہ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے، ذیل میں ملاحظہ کیجئے:

وی او اے : ”وڈیرے کا بیٹا “کے بعد اس بار پھر آپ نے روٹین سے ہٹ کر ایک نئے انداز کا گانا ” کیسادیا؟“ ریلیز کیا ہے ۔آپ کو روایت سے ہٹنا کیوں پسند ہے اور کیا یہ تجربہ کامیاب رہا؟ “
علی گل پیر: ”میرا میوزک عام ڈگر سے ہٹ کر ہے۔ میں ہمیشہ سوشل ایشوز پر طنز کرتا ہوں جس کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ لوگوں کی اصلاح ہو۔ جن دنوں میں نے میوزک کی دنیا میں کچھ کرنے کی ٹھانی انہی دنوں کی سجاد علی صاحب کا ایک گانا آیا ”بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب “۔۔۔ اس کے بعد جنون نے ”احتساب“ گایا پھر ہارون کی آواز میں ”مسٹر فراڈیئے“ ریلیز ہوا۔ان گانوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں بھی کچھ ایسا ہی کرنا چاہتا تھا جو براہ راست لوگوں کے دلوں تک پہنچ سکتا مگر ان گانوں میں سیاست اور سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والوں پر طنز ہوتا تھا، جبکہ میں معاشرتی مسائل پر طنز کرکے لوگوں کو انٹرٹین کرنا چاہتا تھا۔ لہذا، مجھے ڈگر سے ہٹنا پڑا۔ویسے بھی اس وقت تک سوشل ایشوز کو مزاح کے انداز میں گانے کا رواج نہیں پڑا تھا، اسے میں نے شروع کیا۔ یہ انداز لوگوں کو اتنا پسند آئے گا یہ تو خود میں نے بھی کبھی نہیں سوچاتھا۔ اس کے لئے میں اپنے سننے والوں کا شکر گزار ہوا۔“

”سنا ہے’ریپ‘ میں’سر‘ اور’میلوڈی ‘نہیں ہوتی۔ پھر آپ نے اپنے لئے ”ریپ “ہی کیوں چنا؟ کسی اور سمت کیوں قسمت آزمائی نہیں کی؟ “
”میں جدت پسند ہوں ، لگے بندھے سر میں گاہی نہیں سکتا اس لئے ریپ گاتا ہوں اور واقعی ریپ میں سراور میلوڈی دونوں کی کمی ہوتی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود آج کل ریپ کا ہی دور ہے۔ یہ میوزک کا نیا ٹرینڈ ہے۔ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کہیں بھی دیکھ لیجئے لوگ یہی گاتے ملیں گے۔ پاکستان میں تیزی سے ریپ کامیاب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلے 30 یا 40سالوں سے ایک ہی طرز کے گانے بن رہے تھے جس میں آنکھوں میں’ ڈوب جانے‘ ۔۔’ مرمٹنے ۔۔‘ اور’ نین سے نین لڑنے ‘کی باتیں ہوتی تھیں۔لوگ یہ سب کچھ سن سن کر تھک گئے تھے ، انہیں نئے انداز کا میوزک چاہئے تھا کیوں کہ زندگی میں سب کچھ پیار ہی تو نہیں ہوتا۔۔۔ کبھی کبھی ہاراور کبھی کبھی غصہ بھی ہوتا ہے۔۔۔لہذا ریپ نے آتے ہی لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا۔“

”کیسا دیا؟“ دوسروں سے کس طرح مختلف ثابت ہوا؟“
”کیسا دیا؟“ کا میری توقع سے کہیں زیادہ اچھا رسپانس ملا ۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ میڈیا پر طنز کررہا ہوں تو میڈیا والے ہی اسے سمجھ سکیں گے لیکن حالیہ دس پندرہ سالوں میں لوگوں نے میڈیا کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے ۔ اب تو چینلزکی بھر مار ہے، لوگ اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں کہ چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے کیا، کچھ ،کیا جارہا ہے۔ اسی لئے تو میں نے ”کیسا دیا ؟“ میں کہا ہے کہ ”ایک ہاتھ ایمان دو۔۔ برانڈ نیو کار لو۔“ پھر جب یہ کہاجاتا ہے کہ۔۔فلاں آیت کا نام بتاؤ اور موبائل لے جاؤ۔ ۔۔تولوگ سمجھ جاتے ہیں کہ آسان آسان سوالوں پر بڑے بڑے انعامات دینے کا کیا مقصد ہے۔انگنت لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس عمل کو برا بھلا کہا لیکن اس طرح کھل کر کوئی سامنے نہیں آیا جس طرح میں نے ماس میڈیا پر آکر اس پر تنقید کی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے” کیسا دیا“ کو اس قدر پسند کیا۔“

”آپ کو کسی طرف سے اس کی مخالفت کا سامنا کرناپڑا؟ کسی میڈیا کی طرف سے یا کسی اور جانب سے ؟“
”میرے نزدیک مذہب کو پیسے کمانے یا ریٹنگ بڑھانے کے لئے استعمال کرنا درست نہیں۔ پچھلے دنوں ایک بڑے اینکر نے مجھے اپنے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی تھی ۔ ناصرف”کیسا دیا؟“ کی انہوں نے تعریف کی بلکہ اسے اپنے چینل سے دکھانے کی بھی پیشکش کی مگر میں نے معذرت کرلی کیوں کہ میں اخلافی اعتبار سے ان کے کام سے اتفاق نہیں کرتا ۔ رہی بات دیگر اطراف سے مخالفت کی تو ”وڈیرے کا بیٹا“ کی ریلیز کے بعد ابتدائی دنوں میں ہی مجھے اس کی عادت پڑ گئی تھی۔ تقریباً ہر مہینے دو تین تھریٹس۔۔یا دھمکیاں آتی تھیں۔ فون پر ، ای میلز پر اور ویب سائٹ کے ذریعے۔ مجھ پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ میں نے کسی سے فنڈز لیکر سندھ کی ثقافت کا مذاق اڑایا ہے۔ کچھ انجان لوگوں نے دو تین ہفتوں تک میرا مسلسل پیچھا بھی کیا۔ ابتدا میں اندازہ نہیں تھا کہ میں نے کیا کیا۔ لیکن بعد میں رئیلائز ہوا۔پھر جب یہ سوچا کہ جو ڈگر میں نے چنی ہے اس پر تو ایسا ہوتا ہی ہے ، سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ورنہ یہ لائن چھوڑ نا پڑے گی ، چنانچہ فیصلہ یہ کیا کہ جب یہ کرنا ہے تو کرنا ہے ۔۔اور صحیح طرح سے کرنا ہے۔ اس فیصلے کے بعد کام کا مزید مزا آیا۔اب انجوائے کرتا ہوں ۔ اگر ایک دو افراد براکہتے بھی ہیں تو کیا انگنت لوگ پیار بھی تو کرتے ہیں۔ “


سنا ہے آپ اپنے گانے خود ہی لکھتے ہیں؟
”اپنا تمام گانے خود ہی لکھتا ہوں ۔ اگر کوئی اورمیرے لئے لکھے تو بہت عجیب لگتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اگر کسی اور نے لکھا تو میں ریکارڈ ہی نہیں کراسکوں گا ، مجھے مزا ہی نہیں آئے گا۔ میں نے کبھی بھی کسی اور کے لیرکس پر کام نہیں کیا ماسوائے ایک زیر تکمیل پاکستانی فلم کے ۔ یہ ہمایوں سعید کی فلم ہے جو بینکاک میں شوٹ ہورہی ہے ۔ اس میں ایک پارٹی سانگ ہے جو میں نے گایا ہے۔ گانے کے بول پہلے سے تیار تھے ، میوزک بھی ریڈی تھا۔ کمپوزر نے مجھے بلایا اور کہا کہ وہ اس گانے کو میری آواز میں ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں ۔ بس یہی ایک ایسا گانا ہے جس کا شاعر کوئی اور ہے۔ “

اپنے گانوں کی کامیابی کا سہرا اپنے علاوہ کس کو دیتے ہیں؟
” یہ سب ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ میرے میوزک کو کامیاب کرانے میں میرے کالج کے دوستوں تیمور صلاح الدین، خامد خان اورطحہ زیدی وغیرہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ تیمور میوزک کمپوزر تو ہیں، ”کیسا دیا“ کے ڈائریکٹر بھی ہیں جبکہ حامد سنیماٹوگرافر ہیں ،” کیسا دیا“ کی ایڈیٹنگ بھی انہی کی محنتوں کا ثمر ہے۔ طحہٰ زیدی آرٹ ڈیزائنر ہے۔یہ وہی ٹیم ہے جس نے پہلے ”وڈیرے کا بیٹا“ بھی کیا تھا۔“

مستقبل کے حوالے سے کیا پلاننگ ہے ؟ اگلا گانا کون سا ہوگا؟
”مستقبل کے حوالے سے میں کوئی پلاننگ نہیں کرتا اس کا ثبوت میرے گانے کے بول ہیں جو وقت اور حالات کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی ایشو حالات کے مطابق نظر آتا ہے اسے لکھ لیتا ہوں اور اسی پر کام آگے بڑھاتا ہوں ۔ آج کل میں ”نیوز میڈیا“ پر کام کررہا ہوں ۔ فوکس کچھ میڈیا رپورٹرز ہیں جنہیں خود پولیس بھتہ دیتی ہے ۔ یہ ایسا رخ ہے ہماری سوسائٹی کا جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ سب نہیں ۔۔۔کچھ بدمعاش ٹائپ رپورٹر میڈیا کی طاقت کا غلط استعمال کررہے ہیں اور جہاں چاہیں جس کے گھر میں چاہیں چھپاماردیتے ہیں یہاں تک کہ ان کے خلاف پولیس بھی کچھ نہیں کرسکتی ۔“

کیا کوئی البم بھی مارکیٹ کرنے کا ارادہ ہے؟ البم سے کس حد تک مالی فوائد کی توقع ہے؟
”پاکستان میں البم کا دور گیا، اب کوئی البم تیارکربھی لے تو اس سے آمدنی کے انتظار میں ہی وہ بیٹھا رہ جاتا ہے ۔ سب لوگ انٹرنیٹ سے گانے ڈاوٴن لوڈ کرلیتے ہیں ۔ ہم جیسے آرٹسٹوں کو براہ راست البم سے کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ گانوں کی بدولت جو لائیو پرفارمنس کرنے کی دعوت ملتی ہے اس سے مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔یہ گانے ہی ہماری انویسٹمنٹ ہوتے ہیں انہی کے ذریعے آپ کو مارکیٹ سے کام ملتا ہے ۔ ہاں بھارت ، دبئی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں آج بھی میوزک البم مالی فوائد کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کی فروخت کے باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں اور سالوں تک رائلٹی ملتی رہتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ۔ میں نے ”وڈیرے کا بیٹا“ کی رنگ ٹون ڈسٹری بیوشن کے لئے دی تھی ۔ آج بھی آپ مجھے فون کریں تو یہی رنگ ٹون سنائی دے گی۔ اس کی ایک مرتبہ ڈاوٴن لوڈنگ پر مجھے ایک روپیہ مل جاتا ہے ۔ بس ان گانوں سے ایک آرٹسٹ کو اتنا ہی فائدہ پہنچتا ہے۔“

” کیسا دیا؟“ سے جڑا کوئی دلچسپ واقعہ جو آپ قارئین سے شیئر کرنا چاہیں۔۔۔“
”کیسا دیا“ میں ایک کیریکٹر ہے ۔۔”بادشاہ“۔۔ جس کے بال اور مونچھیں بہت لمبی ہیں۔ یہ گانے کے آخر میں اسکرین پر آتا ہے۔ وہ بڑا فنی گیٹ اپ ہے ، شوٹنگ کے بعد میں نے سوچا کیوں نہ لوگوں کا رسپانس دیکھنے اسی گیٹ اپ میں باہر نکلا جائے ۔یہ سوچ کر میں ایک جوس کی دکان پر پہنچ گیا۔ وہاں بیٹھے تمام لوگ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے ۔ وہ سمجھے میں اصل میں ایسا ہوں۔ کندھوں سے بھی نیچے لٹکتے بال ،گرے بان چاک اور گلے میں پڑی موٹی موٹی سونے کی چین ۔ ان کے چہرے دیکھ کر میں نے بہت انجوائے کیا اور فیصلہ کیا کہ کسی دن ایسے ہی عجیب گیٹ اپ میں کسی بڑے شاپنگ مال میں گھوموں گا۔۔۔خود اپنی انٹرٹیمنٹ کے لئے۔ لوگ حیران ہوں اور کچھ بول بھی نہ سکیں تو مجھے اچھا لگتا ہے۔“