اب تک تو چاند سے ہمیں چاندنی مل رہی تھی مگرجلد ہی وہاں سے ہمارے لیے بجلی بھی آنے لگے گی۔
تاہم چاند سے بجلی اس طرح نہیں آئے گی جس طرح خاموش راتوں میں ہمارے آنگنوں میں چاندنی اترتی ہے بلکہ بڑے بڑے بجلی گھروں کو چلانے کے لیے ایندھن چاند سے آیا کرے گا اور سائنس دانوں کا کہناہے کہ اس صدی کے نصف کے بعد چاند زمین پر ماحول دوست توانائی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔
ماہرین کے حالیہ جائزوں کے مطابق زمین پر موجود تمام معدنی ایندھن کے استعمال سے ہم جتنی توانائی حاصل کرسکتے ہیں ، چاند اس سے دس گنا زیادہ توانائی فراہم کرسکتا ہے۔
طبعیات اور فلکیات کے ماہرین کو چاند میں چھپی اس دولت کا علم کچھ عرصے سے تھا مگر اس کا انکشاف ایک ایسے وقت میں کیا گیاہے جب تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافے کے رجحان اور عالمی حدت میں اضافے سے پیدا ہونے والے مسائل کے باعث دنیا کے بہت سے ملکوں کو بجلی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
اگرچہ ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کے کئی طریقوں کو فروغ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں مگرفی الحال سورج اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہے جو بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ جوہری ایندھن بجلی پیدا کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے مگر روس کے چرنوبل اور جاپان کے فوکوشیما جوہری بجلی گھروں کے حادثوں نے اس کے محفوظ ہونے پر کئی سوال کھڑے کردیے ہیں۔ چنانچہ ماہرین کی نظریں اب چاند پر لگ گئی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ چاند پر چرخہ کاتنے والی بوڑھیا کے سوا ایسی کونسی چیز ہے جو زمین پر بجلی پیدا کرنے کے کام آسکتی ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اس چیز کا نام ہے ہیلیم تھری۔
مگر ہیلیم تھری کس چڑیا کا نام ہے۔
ہیلیم تھری اگر پرندہ ہوتا تواپنی شاہانہ خصوصیات کی بنا پر شاید اس کا نام ہما ہوتا اور وہ جس پر مہربان ہوتا اسے مالامال کردیتا۔ مگر ہیلیم تھری ایک جوہری آئسوٹوپ ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین چیز۔۔۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کی مانگ بڑھ رہی ہے اور قیمت میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ ان دنوں اس کے ایک گرام کی قیمت سات ہزار ڈالر ہے جب کہ ماہرین کا کہناہے کہ آنے والے برسوں میں اس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔
قیمتی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہیلیم تھری ایک انتہائی نایاب مادہ ہے اور کرہ ارض پر اس کی کل مقدار کا تخمینہ محض 30 کلوگرام ہے۔ جب کہ ماہرین کے اندازے کے مطابق چاند پروہ دس لاکھ ٹن سے زیادہ موجود ہے ۔
فی الحال ہیلیم تھری کا زیادہ تر استعمال جوہری ہتھیاروں اورجوہری مواد کا کھوج لگانے کے لیے کیا جارہاہے۔ وہ تابکاری خارج نہیں کرتا مگر انتہائی صحت کے ساتھ کسی بھی تابکارمادے کی موجودگی کی نشان دہی کرسکتا ہے۔
لیکن اب یونیورسٹی آف وسکانسن کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ہیلیم تھری سے جوہری ری ایکٹر چلانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹیم کے انچارچ جیرالڈ کولسنسکی کا کہناہے کہ ان کی ٹیم 25 سال سے اس پراجیکٹ پر کام کررہی تھی ۔ اگرچہ حالیہ کامیابی بہت اہم ہے، لیکن ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔
ہیلیم تھری کے ری ایکٹر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے تابکاری خارج نہیں ہوتی اوروہ دیگر جوہری ری ایکٹروں کی طرح انسانی صحت کے لیے کوئی چیلنج پیدا نہیں کرسکتا۔
کولسنسکی کی کامیابی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی خلائی ادارے ناسا نےاپنی 30 سالہ خلائی شٹل سروس ختم کردی ہے اور مستقبل میں وہ اپنی خلائی مہمات کے لیے پرائیویٹ کمپنیوں پر انحصار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جب کہ پرائیویٹ کمپنیوں کو اپنی شٹل سروس شروع کرنے میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔
کولسنسکی کہتے ہیں کہ چاند پر اربوں کھربوں ڈالر کا خزانہ موجود ہے اور ہمیں نہ صرف یہ کہ وہاں جانا ہوگا بلکہ وہاں اپنی تنصیبات بھی قائم کرنا ہوگی۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس منصوبے پر اگلے دو عشروں میں 15 سے 20 ارب ڈالر لگ سکتے ہیں جب کہ زمین پر ایک بڑا جوہری بجلی گھرقائم کرنے پر بھی تقریباً اتنی ہی لاگت آتی ہے۔
کولسنسکی کے ساتھ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک اور سائنس دان ڈاکٹرشمٹ کہتے ہیں کہ چاند پر دوبارہ جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہاں توانائی پیدا کرنے کے اتنے وسائل موجود ہیں جو ہماری زمین کو مستقبل میں ہزاروں برسوں تک روشن رکھ سکتے ہیں۔
چاند سے بجلی اس وقت ایک خواب سا لگتا ہے لیکن آج کی ہر ایجاد کل ایک خواب ہی تھی۔