24 فروری 2017 کی شام، قصور کی پانچ سال کی بچی ایمان فاطمہ اپنی نانی کے گھر کے باہر گلی میں اپنے سات سالہ کزن عدیل کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اور اس کے بعد وہ گھر واپس نہیں آئی۔ عدیل نے بتایا کہ ’’ایمان فاطمہ کو ان لوگوں نے ایک بوری میں ڈالا اور لے گئے۔‘‘ عدیل نے ہی پولیس کی تحویل میں اس شخص کی شنا خت کی۔ وہ مشتبہ شخص 21 سالہ مدثر تھا، جو ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا اور تقریباً دو سال پہلے ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ قصور آیا تھا۔
اس کے بعد جو کچھ اس خاندان کے ساتھ ہوا اس کے بارے میں مدثر کے بھائی شہزاد کہتے ہیں:’’بیس سال کا تھا تو ہم نے اس کی شادی کر دی تھی، بہت ہی سیدھا سادا اور شرمیلا سا لڑکا تھا۔ پڑھنے کا شوق نہیں تھا اس لئے شروع سے محنت مزدوری کر تا تھا۔ جب پولیس اسے پکڑنے آئی تو وہ کام پر گیا تھا‘‘۔
انہوں نے اس کی بیوی سے کہا ’’اسے بلاؤ۔ وہ بایئک پر آیا تو اس کے ہاتھ اور کپڑے مزدوری کی وجہ سے میلے تھے ۔ پولیس والے اسے مارتے ہوئے لے گئے ۔ جب ہم تھانے گئے تو ہمیں ملنے نہیں دیا۔ کہا ابھی واپس آ جائے گا۔ ہمارا پورا گھر جاگتا رہا۔ ڈھائی بجے رات کو تھا نے سے فون آیا کہ ہم مدثر کو جائے حادثہ لے جارہے تھے، اس نے بھاگنے کی کو شش کی اور مقابلے میں مارا گیا‘‘۔
ان کی ماں جمیلہ بی بی نے روتے ہوئے کہا ’’جب اپنے بچے کی لاش لے کر گھر آئے تو اس کی ٹانگ اور بازو ٹوٹا ہوا تھا۔ اور سینے پر دو گولیاں لگی تھیں۔ اس کا بچہ اس وقت صرف تین ماہ کا تھا، میری بہو کے میکے والے لاش دفن ہوتے ہی اپنی بیٹی اور نواسے کو ساتھ لے گئے ۔۔ میرے دونوں بچے ایک ساتھ ہی، مجھ سے جدا ہو گئے ۔‘‘
ایمان فاطمہ کے صدمے سے چور والد، تاسین، کہتے ہیں ’’وہ ہمیں چار گھنٹے بعد ایک زیر تعمیر مکان سے ملی تھی ۔ ہم نے سڑک بند کر کے احتجاج شروع کر دیا ۔ پھر پولیس نے کہا کہ مجرم مدثر حراست میں لیا گیا ہے۔ جہاں اس نے اقبال جرم بھی کرلیا ہے، مجھے اور میرے بھائی کو تھانے بلا کر ہمارے سامنے بھی اس سے اعتراف کروایا اور ہم سے کہا’’اب تو آپ کو اطمینان ہو گیا؟ اب احتجاج ختم کر دیں‘۔ ہم اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور میں نے اپنی سب سے چھوٹی اور سب سے پیاری بیٹی کو دفن کردیا۔ پھر پولیس کے مطابق مدثر اسی رات بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے مارا گیا۔ پہلے تو ہمیں یہی تسلی دی جاتی رہی کہ ہمارا مجرم مر چکا ہے۔ اب زینب کے واقعے کے بعد ہمیں پتا چلا ہے کہ اصل مجرم تو عمران تھا۔ میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں ۔ مجھے ڈی این اے کی سمجھ نہیں آتی۔ لیکن یہ ضرور سوچتا ہوں کہ اگر مجرم عمران تھا تو مدثر کے ساتھ کیا ہوا! کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا، میرا سر چکرا جا تا ہے ۔‘‘
’میری کہانی‘ کے اس شو میں ہمارے مہمان تھے قانونی ماہر اور برسر اقتدار مسلم لیگ نون کے راہنما، سید ظفر علی شاہ۔ انہوں نے ایمان فاطمہ اور مدثر کے خاندان کو تسلی دی کہ معاملے کی بڑے پیمانے پر چھان بین ہو رہی ہے۔ لیکن اگر انہیں وکیل کی یا کسی طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہو تو وہ بلا معاوضہ ان کی پیروی کریں گے۔ شہزاد نے انہیں بتایا کہ انہوں نے وکیل کر رکھا ہے لیکن ڈی پی او نے دھمکیاں دی ہیں کہ اپنا کیس واپس لو۔ ظفر صاحب نے اس معاملہ کا جائزہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔
ایمان فاطمہ کے والد، تاسین صاحب نے ان سے پوچھا کہ آخر کیوں مدثر نے ان کے سامنے اعتراف جرم کیا تھا؟ ظفر علی شاہ نے کہا ’’کہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، بد دیانت پولیس اہل کار جب چاہتے ہیں تشدد کے ذریعہ من چاہا بیان حاصل کر لیتے ہیں۔ اور یہ صرف کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ جب تک پو لیس کے محکمے کو اور نظام کو ٹھیک نہیں کیا جاتا، ایسے واقعات ہوتے رہیں گے‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5