میانمار کے صدر تھائن سین نے حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سو چی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کو اس ہفتے ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جماعت پر بظاہر بھاری اکثریت سے کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔
این ایل ڈی کے ترجمان نے کہا ہے کہ پارٹی کو وزیر اطلاعات یو یی ٹوٹ کی ذریعے بدھ کو صدر تھائن شین کی طرف سے پیغام موصول ہوا جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے این ایل ڈی کی کامیابی کی تصدیق ہونے کے بعد حکومت اقتدار کی ’’پرامن منتقلی‘‘ کو یقینی بنائے گی۔
بدھ کو صبح وزیر اطلاعات یو یی ٹوٹ نے اپنے سرکاری ’فیس بک‘ صفحے پر لکھا کہ صدر تھائن شین نے آنگ سان سو چی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش قبول کر لی ہے اور یہ مذاکرات الیکشن کمیشن کی طرف سے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد کیے جائیں گے۔
آنگ سان سو چی نے بدھ کو صدر تھائن شین، پارلیمانی اسپیکر شوے مان اور فوج کے سربراہ من آنگ ہلینگ کو خطوط لکھے اور ان سے اگلے ہفتے ملاقاتوں کی درخواست کی جس کا بظاہر مقصد اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانا ہے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے اب تک جاری ہونے والے نتائج کے مطابق این ایل ڈی نے 135 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور پارلیمان کے ایوان زیریں میں اس کی کامیابی کا تناسب 90 فیصد ہے۔ آنگ سان سو چی نے بھی رنگون ریاست میں اپنی نشست پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔
این ایل ڈی پہلے ہی فوج کی حمایت یافتہ حکمران جماعت یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی پر اپنی بھاری کامیابی کا دعویٰ کر چکی ہے مگر اس نے کمیشن کی جانب سے نتائج کے اعلان میں سست روی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ الیکشن کمیشن جان بوجھ کر نتائج کے اعلان میں تاخیر کر رہا ہے۔
الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے 25 سال بعد ایک مرتبہ پھر ایسا لگ رہا ہے کہ میانمار کی حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سو چی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی اپنی کامیابی کو دہرانے جا رہی ہے۔
1990 میں ہونے والے انتخابات کی نتائج کو فوجی حکومت نے تسلیم نہیں کیا تھا اور آنگ سان کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ این ایل ڈی کو آئینی ترامیم کی راہ میں فوج کو حائل ہونے سے روکنے کے لیے دو ایوانوں پر مشتمل مقننہ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ہو گی۔
آئین میں 70 سالہ آنگ سان سو چی پر صدر بننے پر پابندی عائد ہے کیونکہ ان کے مرحوم شوہر اور دو بچے برطانوی شہری ہیں۔ تاہم بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اصرار کیا ہے کہ صدر جو کوئی بھی ہو این ایل ڈی کی رہنما کی حیثیت سے تمام فیصلے وہ کریں گی۔
2008 کے آئین کے مطابق 440 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں 25 فیصد نشستوں پر نمائندے نامزد کرنے کا اختیار فوج کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ فوج کے سربراہ کو تین اہم اور بڑے بجٹ والی وزارتوں کے سربراہ چننے کا اختیار حاصل۔ فوج کے سربراہ کو مخصوص حالات میں حکومت کو معزول کرکے اقتدار سنبھالنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
فوج اور پارلیمان کی بڑی جماعتیں اگلے سال صدر کے انتخاب کے لیے اپنے اپنے امیدوار نامزد کریں گی۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو صدر منتخب کیا جائے گا جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے دو امیدوار نائب صدر ہوں گے۔
میانمار میں 2011 میں طویل فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد اس سال پہلی مرتبہ انتخابات منعقد کرائے گئے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات میں تین کروڑ سے زائد شہریوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
بین الاقوامی مبصرین نے الیکشن کو کامیاب قرار دیا مگر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حق رائے دہی سے محرومی اور پیشگی ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی شفاف نہ ہونے پر نشویش کا اظہار کیا ہے۔