امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے ایک ہوٹل میں ایک خصوصی تربیتی پروگرام کا آغاز ہوگیا ہے، جس میں وسیع جنگی تجربہ رکھنے والے فوجی اہلکار امریکہ کی 24 ریاستوں کے انتخابی اہلکاروں کو روس، چین اور دیگر ممالک کی جانب سے امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخاب پر ممکنہ طور پر اثرانداز ہونے کی کوششوں سے نمٹنے سے متعلق امریکی فوج کے نقطہ نظر سے آگاہ کر رہے ہیں۔
فوجی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انتخابی اہلکاروں کو امریکہ کے فوجی نقطہ نظر کو جاننا ضروری ہے، تاکہ ووٹنگ کے تقدس کو برقرار رکھا جا سکے۔
یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں مبینہ روسی مداخلت کے بعد امریکہ کی انٹیلی جنس اور نگرانی کے نظام ہائی الرٹ پر ہیں اور وہ ہر اس مشکوک سرگرمی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں جو امریکہ کے انتخابی عمل پر اثر انداز ہو سکے۔
تربیتی پروگرام میں شریک کیلی فورنیا کی یولو کاؤنٹی کے چیف الیکشن افسر جیسی سیلیناز کہتے ہیں کہ یہ جنگ کا ایک مختلف درجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ صرف ایسی چیزوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں آپ کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں اور ہماری جمہوریت بہت سے ایسے ملکوں کیلئے خطرہ ہے جو ہمیں ناکام بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ لہٰذا، ہمیں جوابی حملہ کرنا ہو گا اور ہر خطرے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔
سیلیناز کے ساتھ ان کے چار مزید ساتھی بھی اس تربیتی کورس میں شریک ہیں جو ہاورڈ کینڈی سکول کے بیلفر مرکز برائے سائنس اور بین الاقوامی امور کے ڈیجیٹل جمہوریت کے دفاعی پروجیکٹ کا حصہ ہے۔
یہ گروپ امریکی فوج کے سابق اور حاضر سروس افسروں اور قومی سلامتی کے اہلکاروں کے علاوہ سیاسی اور مواصلاتی ماہرین کے اشتراک عمل سے سرگرم ہے جو اپنے سرکاری اوقات کار کے بعد یا چھٹیوں کے دوران ریاستی اور مقامی انتخابی اہلکاروں کی تربیت اور ان کے لیے مینوئل تیار کرنے میں مدد دے رہا ہے۔
اس تربیت کے دوران انتخابی کارکنوں کو فوج کے محاذ جنگ پر کمان کے سٹرکچر کی طرز پر اپنا نظام وضح کرنے کو موقع فراہم کیا جاتا ہے، جس میں ہر شخص کا رول اور ذمہ داریاں واضح ہوں اور پیش آنے والی چھوٹی بڑی مشکلات کو حل کرنے کیلئے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز تشکیل دیے جا سکیں۔
تربیت دینے والوں میں بیلفر سینٹر کے شریک ڈائریکٹر اور سابق فوجی انٹیلی جنس افسر ایرک روزنباخ بھی شامل ہیں جو سابق صدر اوباما کی انتظامیہ میں وزیر دفاع ایش کارٹر کے چیف آف سٹاف بھی تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر جمہوریت کو خطرہ پیش آتا ہے اور یہی انتخابی اہلکار براہ راست نیزے کی نوک پر ہوتے ہیں تو انہیں ایسی تربیت کیوں نہ فراہم کی جائے کہ وہ اس سے درست انداز میں نمٹ سکیں۔