طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر صحت مند طرز زندگی، فضائی آلودگی اور شہروں میں مسلسل توسیع کے سبب ایک اندازے کے مطابق آٹھ کروڑ افراد امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر، سرطان، ذیابیطس، دماغی امراض اور دیگر غیر متعدی امراض میں مبتلا ہیں۔
پاکستان کی نجی جامعہ آغا خان یونیورسٹی کے تحت بنائے گئے تھنک ٹینک کے اجلاس میں ماہرین نے اظہار خیال کرتے ہوئے اس نکتے پر زور دیا کہ پاکستان میں غیر متعدی امراض یعنی نان کیمونی کیبل ڈیزیز اور ان سے ہونے والی اموات کو روکنے، ان کے علاج سے متعلق جدید اور مکمل رہنمائی فراہم کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر زینب صمد نے کہا کہ غیر متعدی امراض صرف ہیلتھ کیئر سیکٹر کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کی پیچیدگیاں اور دیرپا اثرات معاشرے، پیداواری صلاحیت اور معاشی نشونما کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان امراض کا علاج بیشتر خاندانوں کو غربت کے دہانے پر لے آتا ہے جبکہ انہیں حکومت اور دیگر معاشرتی عوامل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
پروفیسر واسع شاکر نے کہا کہ 2010 میں ائربلیو حادثے میں 125 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں جس پر عوامی توجہ کے باعث فوری طور پر ضابطے بنائے گئے تاکہ آئندہ ایسے حادثات نہ ہوسکیں لیکن غیر متعدی امراض جن سے اس حادثے کے برعکس یومیہ 14 گنا زائد ہلاکتیں ہوتی ہیں اس پر نہ حکومت توجہ دیتی ہے نہ ہی سول سوسائٹی اپنی آواز بلند کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ امراض خاموش قاتل ہیں جو غیر محسوس طریقے سے بڑھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان پر قابو پانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔
SEE ALSO: سرطان کے مرض میں تشویشناک حد تک اضافہان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر طرز زندگی بہتر بنانے سے متعلق مختلف مہمات چلائی جائیں جس کے لیے میڈیا اور اسکولز سے مدد لی جا سکتی ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ ہر مہم کےذریعے سگریٹ نوشی، سستی و کاہلی، آرام پسند طرز زندگی اور کھانے کی بری عادات کے نقصانات کے بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر واسع شاکر نے اسٹیک ہولڈرز سے کہا کہ وہ تعلیم و تربیت، پالیسی سازی، آگہی اور تحقیق کے شعبوں میں اقدامات پر غور کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اموات اور صحت کی خرابی کی اولین وجہ غیر متعدی امراض ہیں۔ اس کے باوجود حکومت ان کے خاتمے کے لیے بے ربط حکمت عملی سے کام کر رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کے مطابق حکومتی اداروں میں رابطوں کا بھی فقدان ہے۔ ملک عالمی ادارہ صحت کے بنائے گئے 'نیشنل سسٹمز ریسپانس' کے اہداف کے حصول سے بھی بہت دور ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ڈیموگرافکس بتاتے ہیں کہ غیر متعدی امراض پریشان کن مسئلہ ہیں۔ ملک کی آبادی کا زیادہ حصہ 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے اس لیے خطرہ ہے کہ آئندہ برسوں میں ان بیماریوں کا بوجھ آبادی کے اس طبقے پر زیادہ پڑے گا۔