احسان اللہ احسان کے بارے میں ’’ثبوت‘‘ سامنے آنے چاہئیں: تجزیہ کار

فائل

ڈاکٹر مارون نے کہا ہے کہ ’’اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ پاکستانی طالبان کے دونوں ہمسایہ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات رہے ہیں تو پھر بہت سی چیزیں تبدیل ہو جائیں گی‘‘

امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیموں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان، احسان اللہ احسان کا اقبالی بیان ’’چونکا دینے والا ضرور ہے‘‘، لیکن ’’جب تک اس کیلئے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جاتے، اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہے گا‘‘۔

چند روز پہلے، شدت پسند تنظیموں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ان تنظیموں کو مدد فراہم کرتی رہی ہیں۔

پاکستانی فوج کی طرف سے شدت پسند تنظیموں کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا ایک وڈیو اعترافی بیان جاری کیا گیا، جس میں اس نے ان تنظیموں کی سرگرمیوں اور خود کو "رضاکارانہ" طور پر پاکستانی حکام کے حوالے کرنے کی تفصیل بتائی۔

بیان میں احسان اللہ احسان نے دعویٰ کیا کہ ان شدت پسند تنظیموں کو افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد حاصل ہے جو ان دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہیں اور مقررہ اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے، مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں پاکستان سٹدیز کے ڈائیریکٹر، ڈاکٹر مارون وائیں بوم کا کہنا تھا کہ یہ ’’ایسے شواہد موجود ہیں کہ افغان خفیہ ادارے کا تھوڑا بہت تعلق تحریک طالبان پاکستان سے رہا ہوگا۔ لیکن، بھارتی خفیہ ادارے کے بارے کبھی کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا۔ اور اگر اس شخص کے ماضی کو سامنے رکھا جائے تو پھر اس کی ساکھ ٹھوس نہیں۔ تاہم، یہ ایک زبردست بیان ضرور ہے‘‘۔

ڈاکٹر مارون وائین بوم نے کہا ہے کہ وہ اِس بیان کو ممکنہ طور پر دھماکہ خیز خیال کرتے ہیں۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ ’’ہمیں اسِے شک کی نگاہ سے بھی دیکھنا ہوگا، کیونکہ اس کی وجہ اس شخص کی ساکھ اور اس کا معتبر ہونا ہے‘‘۔

تاہم، وائٹ ہاؤس کی سابقہ اہلکار اور ’نیو امریکہ‘ سے وابستہ تجزیہ کار شمائلہ چوہدری کہتی ہیں کہ جب انہوں نے یہ خبر دیکھی تو انہیں یاد آیا کہ ماضی میں اِن عسکری تنظیموں کے اندرونی اختلافات سامنے آتے رہے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتے رہے ہیں۔ لیکن، اس کے بعد، وہ پھر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے، ان کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے، بقول ان کے، ’’یہ باتیں بے معنی ہیں‘‘۔ اُنھون نے کہا کہ ’’دوسرے یہ کہ یہ وہی شخص ہے جو ماضی میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کاروائیوں کی حمایت کرتا رہا ہے‘‘۔

شمائلہ کا کہنا تھا کہ بطور تجزیہ کار اُنہیں یہ بات حیرت انگیز لگی کہ یہ باتیں براہ راست اس کی طرف سے، ’’یعنی (احسان) کی جانب سے آ رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا شخص ہے جس کا تعلق اُس جماعت سے رہا ہے جو پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی حامی ہے‘‘۔ اسلئے، انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہمیں اس بارے میں سچائی سے کام لینا ہوگا؛ کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور یہ بیان ماضی سے کس قدر مطابقت رکھتا ہے‘‘۔

تاہم، ڈاکٹر مارون نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ پاکستانی طالبان کے دونوں ہمسایہ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات رہے ہیں تو پھر بہت سی چیزیں تبدیل ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر وائین بام کا کہنا تھا کہ تو پھر ان کےخیال میں یہ ایک بہت ہی ٹھوس ثبوت ہوگا کہ ’ٹی ٹی پی‘ کے بیرونی عناصر سے ربط و ضبط رہے ہیں۔ اور اس سے یہ بات غیر معتبر ہوگی کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی جہادی تنظیم ہے۔

ڈاکٹر وائین بام کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان اور افغانستان کیلئے بھارت کی پالیسی کے بارے میں خیالات میں بھی تبدیلی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پاکستان اور افغانستان کیلئے بھارت کی پالیسی پر بھی اثرات مرتب ہونگے اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگی کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی اور ٹی ٹی پی کے درمیان کسی نہ کسی سطح کا تعاون موجود ہے۔

تاہم، شمائلہ چوہدری اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس پر پہلے بھی باتیں ہو چکی ہیں۔ ماضی میں بھی پاکستانی اور امریکی حکومتوں کے درمیان اس بارے میں بہت سی باتیں ہو چکی ہیں۔ اور میں اِسے امریکہ کی انٹیلی جنس کمیونٹی اور پالیسی کمیونٹی کے نقطہ نظر سے جانتی ہوں کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے ایسے بڑے دعووں کے باوجود، اِس میں اُن کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔ اور اگر یہ بات ثابت ہوتی ہے تو پھر اُن ممالک کی حکومتوں کو آپس میں بات کرنا ہوگی۔

یہ دونوں تجزیہ کار اُن بہت سے ماہرین کی نمائندگی کرتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا جاتا ہے تو پھر پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں پائے جانے خیالات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔