ماہرین کہتے ہیں کہ مصریوں کی اکثریت اس وقت موجودہ حکومت کی کارکردگی سے ناخوش دکھائی دیتی ہے اور چاہتی ہے کہ فوج اقتدار میں آکر ان کے ملک کو تباہی کے دہانے میں گرنے سے بچا لے۔
واشنگٹن —
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصرکے تحریر چوک میں شروع ہونے والے انقلاب کے بعد سے مصر کے حالات بہتری کی بجائے مایوس کن حد تک خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ مصر میں رہنے والوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات تک رسائی نہیں ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے جیسا کہ گیس کی کمی، بجلی کی کمی اور روز بروز بڑھتی مہنگائی۔
پبلشر ہشام قاسم ان حالات کا ذمہ دار مصر کی موجودہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ مجھے حیرانی نہ ہوگی کہ اگر کسی دن ہم اٹھیں اور ہمیں معلوم ہو کہ ملک میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی کھانے کے لیے روٹی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ حالات تباہ کن حد تک خراب ہو جائیں گے۔ اور اگر ایسا وقت آیا تو پھر فوج کو مداخلت کرنا پڑی گی اور موجودہ حکومت کو اقتدار سے باہر کرنا ہوگا۔‘‘
شاید یہی حل بہت سے مصریوں کے لیے قابل ِ قبول ہوگا۔ انقلاب کے دوران جب فوج نے کنٹرول سنبھالا تھا، لوگوں نے اس وقت ’’عوام اور فوج ایک ہیں‘‘ کے نعرے بلند کیے تھے۔
لیکن بہت سے مصریوں کا خیال ہے کہ فوج اپنے آپ کو سیاست اور حکومتی معاملات میں مداخلت سے دور رکھنا پسند کرے گی۔ ہالا جلال ایک سرگرم کارکن اور فلم میکر ہیں۔ ان کے مطابق، ’’مجھے ایسا نہیں لگتا کہ فوج آئے گی۔ میرا خیال میں ان کے اور اخوان المسلمین کے درمیان کوئی معاہدہ طے پا چکا ہے۔‘‘
ماہرین کے مطابق بہت سے مصریوں کی یہ سوچ کہ فوجی مداخلت مصر کے مسائل کا واحد حل ہے، شاید ٹھیک ہو۔ لیکن زیاد اکل جیسے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سوچ درست نہیں اور نہ ہی مسئلے کا حل ہے۔ زیاد اکل کے مطابق، ’’ہر مصری یہی سوچ رہا ہے کہ آخر میں فوج ہی ملک بچائے گی۔ مصری عوام ہمیشہ سے ہی سیاسی معاملات سے دور رکھے گئے ہیں اور یہ چیز ان کے لیے پریشان کن ہے۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ مصریوں کی اکثریت اس وقت موجودہ حکومت کی کارکردگی سے ناخوش دکھائی دیتی ہے اور چاہتی ہے کہ فوج اقتدار میں آکر ان کے ملک کو تباہی کے دہانے میں گرنے سے بچا لے۔
پبلشر ہشام قاسم ان حالات کا ذمہ دار مصر کی موجودہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ مجھے حیرانی نہ ہوگی کہ اگر کسی دن ہم اٹھیں اور ہمیں معلوم ہو کہ ملک میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی کھانے کے لیے روٹی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ حالات تباہ کن حد تک خراب ہو جائیں گے۔ اور اگر ایسا وقت آیا تو پھر فوج کو مداخلت کرنا پڑی گی اور موجودہ حکومت کو اقتدار سے باہر کرنا ہوگا۔‘‘
شاید یہی حل بہت سے مصریوں کے لیے قابل ِ قبول ہوگا۔ انقلاب کے دوران جب فوج نے کنٹرول سنبھالا تھا، لوگوں نے اس وقت ’’عوام اور فوج ایک ہیں‘‘ کے نعرے بلند کیے تھے۔
لیکن بہت سے مصریوں کا خیال ہے کہ فوج اپنے آپ کو سیاست اور حکومتی معاملات میں مداخلت سے دور رکھنا پسند کرے گی۔ ہالا جلال ایک سرگرم کارکن اور فلم میکر ہیں۔ ان کے مطابق، ’’مجھے ایسا نہیں لگتا کہ فوج آئے گی۔ میرا خیال میں ان کے اور اخوان المسلمین کے درمیان کوئی معاہدہ طے پا چکا ہے۔‘‘
ماہرین کے مطابق بہت سے مصریوں کی یہ سوچ کہ فوجی مداخلت مصر کے مسائل کا واحد حل ہے، شاید ٹھیک ہو۔ لیکن زیاد اکل جیسے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سوچ درست نہیں اور نہ ہی مسئلے کا حل ہے۔ زیاد اکل کے مطابق، ’’ہر مصری یہی سوچ رہا ہے کہ آخر میں فوج ہی ملک بچائے گی۔ مصری عوام ہمیشہ سے ہی سیاسی معاملات سے دور رکھے گئے ہیں اور یہ چیز ان کے لیے پریشان کن ہے۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ مصریوں کی اکثریت اس وقت موجودہ حکومت کی کارکردگی سے ناخوش دکھائی دیتی ہے اور چاہتی ہے کہ فوج اقتدار میں آکر ان کے ملک کو تباہی کے دہانے میں گرنے سے بچا لے۔