جمعے کے روز قاہرہ اور الیگزینڈریہ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کو موضوع ِبحث بنایا گیا جسے کئی ایک لوگ پچھلی حکومت کی باقیات کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
مصر میں یہ تناؤ اس وقت شروع ہوا جب جمعرات کے دِن اعلیٰ آئینی عدالت نے مصر کی مقبول بغاوت کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
احتجاج کرنے والے متعدد لوگوں کا غصہ احمد شفیق پر تھا جنھوں نے سابق صدر حسنی مبارک کے آخری ایام میں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ الیگزینڈریہ کی سڑکوں پر لوگ ’شفیق کو شکست دو‘ اور’ فوجی حکمرانی مردہ باد‘ کے نعرے لگارہے تھے۔
عدالت کے فیصلے کے ذریعے اسلام پرستوں کی قیادت والے پارلیمان کی طرف سے منظور کردہ ایک قرارداد کو خارج کردیا جس میں مبارک حکومت کے دور سے تعلق رکھنے والے سینئر حکام پر کسی سرکاری عہدے تک رسائی کی ممانعت عائد کی گئی ہے، جس کے ذریعےہفتے اور اتوارکو ہونے والے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں شفیق کے لیے راستہ صاف ہو گیا ہے۔ یہ جج جو مبارک کے عہد کی باقیات ہیں اُنھوں نے پارلیمانی انتخابات کے آخری مرحلےکے بارے میں قانونی نکتے اٹھائے اور اسلام پرستوں کی قیادت والے پارلیمان کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
کچھ چوٹی کے اسلام پرست حکمراں فوجی کونسل پر فی الواقع تختہ الٹنے کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
ایمان احمد قاہرہ میں احتجاج کرنے والے بھوک ہڑتالی ہیں۔ اُنھوں نے سنگین نتائج کی پیش گوئی کی۔ اُن کے خیال میں ملک میں ایک بڑی خانہ جنگی ہونے والی ہے۔ یہ نہ صرف اُن کا بلکہ کئی ایک لوگوں کا بھی خیال ہے۔
تاہم، مظاہرہ کرنے والے اخوان المسلمین کے حامی حمدی عبدل الرحمٰن کہتے ہیں کہ مصریوں کو کچلا نہیں جا سکتا۔
وائس آف امریکہ کی الزبتھ اروٹ نے قاہرہ سےخبر دیتے ہوئے بتایا ہے کہ متعدد مصریوں کو فکر لاحق ہوگئی ہے جو غصے کا روپ دھار رہی ہے۔
حکمراں فوجی کونسل نے کہا ہے کہ ہفتے اور اتوار کو شفیق اور اخوان المسلمین نے صدارتی امیدوار محمد مورسی کے درمیان ہونے والی ووٹنگ مقررہ کردہ تاریخوں پر ہی ہوگی۔
متعدد مصری صدمے کی حالت میں اور ناخوش ہیں، جو حالات کے سامنے مجبور نظر آتے ہیں اور کچھ احتجاج کو درج کرانے کے لیے ووٹنگ کےبائیکاٹ یا پھرخالی بیلٹ پیپرڈالنے کی باتیں کررہےہیں۔
اشرف محمود الیگزینڈریہ میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سوائے ووٹ کے،کوئی متبادل نہیں۔
باوجود اِس بات کے کہ حکمراں فوجی کونسل کے خلاف برہمی کی باتیں ہو رہی ہیں، مونا مکرم عبید، جن کا تعلق قاہرہ کی امریکی یونیورسٹی سے ہے، کہتی ہیں کہ شفیق جیت بھی جائیں تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ سابق صدر حسنی مبارک کا دور واپس آجائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ واشنگٹن صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے اور اُسے توقع ہے کہ ایک مکمل طور پر منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہوگا۔
جمعرات کے دِن قاہرہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے احمد شفیق نے عدالت کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے تمام مصریوں پر زور دیا کہ وہ پولنگ میں شرکت کریں۔
تاہم، اخوان المسلمین نے کہا ہے کہ عدالت کے فیصلے سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ مصر والے بے انتہا مشکل دور میں داخل ہونے والے ہیں جو مبارک کے حکمرانی کے آخری ایام سے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔