عید کی خوشیاں تو اپنوں کے ساتھ مل جل کر ہی منائی جاتی ہیں لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس خوشی کے موقع پر بھی اپنوں کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے ہی کئی لوگ ملک کے ایک بڑے فلاحی ادارے "ایدھی ہوم" اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
یہاں ایسے بچوں سمیت لگ بھگ 110 افراد رہتے ہیں جنہیں عید پر انتظار ہے کہ ان کا کوئی اپنا ان سے ملنے آئے۔
ایدھی ہوم اسلام آباد کے نگران شکیل احمد کہتے ہیں کہ وہ بھی اس بات کے منتظر رہتے ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے عزیز رشتے دار ان سے رابطہ کریں۔
"میں انتظار ہی کرتا رہا فون پرکہ شاید کسی کا وارث ، کسی کے ماں باپ ، کسی کا بیٹا اپنی ماں سے اپنے باپ سے یا اپنے معذور بچے سے ملنے آئے گا لیکن کسی کا فون نہیں آیا"۔
ایدھی ہوم کی ایک مکین فوزیہ جلیل کی بھی یہ خواہش ہے کہ اس دن ان کے اپنے ان کے ساتھ ہوتے۔
" ظاہر ہے کہ دل تو چاہتا ہے کہ ہم بلکہ ان میں ہوں یہاں نہیں تو وہ ہمیں ملنے کے لیے یہاں آجائیں لیکن شاید ان کے پاس وقت نہیں ہے"۔
" عید کا دن عام گھروں کی طرح گزر رہا ہے کوئی خاص فرق نہیں لگتا بس اپنے نہیں ہیں باقی بہتر ہے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ ظاہر ہے خواہش اس گھر( ایدھی ہوم) کے ہر فرد کی یہ خواہش ہوتی ہے بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے گھر جاکر منائیں یہ نہیں ہے کہ اس خوشی میں اپنوں کو تو کوئی نہیں بھولتا اگر وہ آ جائیں یہاں کچھ بچے خواہش یہ کرتے ہیں کہ وہ عید اپنے گھر اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ منائیں لیکن کوشش کر رہے کہ ان کی یہ کمی پوری کر سکیں"۔
شکیل احمد نے بتایا کہ ایدھی ہوم میں 39 بچے بھی رہتے ہیں یہاں ان کی ضروریات کا خیال بھی رکھا جاتا ہے لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ان کے والدین کی ہے۔
" ہر بچے کی خواہش ہے کہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کافی بچے ابھی گم سم ہیں وہ انتظار میں ہیں کہ ان کے امی ابو آ جائیں لیکن کچھ بچوں کے والدین جیل میں ہیں اور وہ اپنی سزا کے منتظر ہیں ۔۔۔۔کچھ ایسے بچے بھی ہیں جن کو پتہ ہے ان کے ماں باپ ہیں لیکن وہ مل نہیں سکتے ہیں نا وہ ملنےکے لیے آ سکتے ہیں ایسے مجبور بچے بھی ہیں"۔
" ان کے پاس بے شمار کھلونے ہیں لیکن ماں باپ کی کمی وہ کھلونے پوری نہیں کر سکتے ہیں ہماری کوشش ہوتی ہیں کہ ان کا ذہن کھلونوں کی طرف رہے اپنوں کو یاد نا کریں جو ان کو چھوڑ چکے ہیں"۔
تاہم شکیل احمد کا کہنا ہے کہ ایسے خاندان بھی ہیں جو عید کے دن اپنے بچوں کے ساتھ یہاں کے مکین بچوں کے لیے تحائف لے کر آتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے بچے بہت خوش ہوتے ہیں۔