مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کے بعد حالات نسبتاً پرامن

یوکرین کی فوج کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ ان کے بہت سے فوجیوں نے کئی دنوں بعد اچھی اور بھرپور نیند کی ہے۔

یوکرین کے مشرقی علاقے میں سرکاری فورسز اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان فائربندی پر اتفاق کے بعد گو کہ ہفتہ کو صورتحال پر امن رہی تاہم مقامی آبادی اور جنگجو دوبارہ لڑائی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

جمعہ کو یوکرین، علیحدگی پسند رہنماؤں، روس اور یورپی نگران تنظیم کے نمائندوں نے جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کیا تھا لیکن باغیوں کے زیر تسلط علاقے ڈونٹسک کے گردونواح میں رات گئے خبر رساں ایجنسی "رائٹرز" کے مطابق گولہ باری کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

مونتانا کے نام سے پہچانے جانے والے باغیوں کے ایک کمانڈر کا کہنا تھا کہ " یہ (جنگ بندی) وقتی طور پر اچھی معلوم ہو رہی ہے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ وہ (یوکرین) اس وقت کو مزید فوج اور اسلحہ یہاں لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور پھر ہم پر نئی قوت کے ساتھ حملہ کریں گے۔"

یوکرین کے صدر پوروشنکو نے اس معاہدے پر آمادگی سے قبل روس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ علاقے میں اپنے فوجی اور عسکری سازوسامان بھیج کر علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ لیکن ماسکو ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔

جنگ بندی کے معاہدے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ پانچ ماہ سے یوکرین کے مشرقی علاقے میں جاری لڑائی اور بحران حل ہو سکے گا۔ اس لڑائی کی وجہ سے اب تک دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

لیکن روس پر علیحدگی پسندوں کی حمایت کا الزام عائد کرنے والے امریکی صدر براک اوباما نے جمعہ کو کہا تھا کہ انھیں شبہ ہے کہ علیحدگی پسند اس معاہدے کی پاسداری کریں۔

رائٹرز کے مطابق سرکاری فورسز کے ساتھ روابط رکھنے والے ایک دفاعی تجزیہ کار دمترو تیمچوک نے الزام عائد کیا کہ وہ باغیوں نے اس خطے کے مختلف مقامات پر فائربندی کی خلاف ورزی کی ہے۔

"یوکرین کی فورسز مکمل طور پر معاہدے کی پاسداری کر رہی ہیں اور صرف اسی خود پر حملے کی صورت میں ہی گولی چلائیں گی۔"

یوکرین کی فوج کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ ان کے بہت سے فوجیوں نے کئی دنوں بعد اچھی اور بھرپور نیند کی ہے۔