محققین نے دماغی مرض ’الزائمر‘ سے متاثرہ افراد کے علاج میں ایک نئی پیش رفت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دوا مریضوں کی یادداشت کم ہونے کی رفتار کو مرض کے آغاز میں سست کر سکتی ہے۔
دنیا بھر میں اس مرض سے لگ بھگ تین کروڑ افراد متاثر ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کی یاد داشت ختم ہو جاتی ہے اور وہ آزادانہ طور پر حرکت کے قابل نہیں رہتے۔ امریکہ میں اس سے متاثرہ افراد کی تعداد 60 لاکھ ہے اور اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ تین دہائیوں میں امریکہ میں اس سے متاثرہ افراد کی تعداد دگنی ہو جائے گی۔
برطانیہ کے یونیورسٹی کالج لندن کے ڈیمینشیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر برٹ ڈی سٹروپر کہتے ہیں کہ یہ پہلی دوا ہے جو حقیقت میں الزائمر کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوا کے کلینکل ٹرائلز میں اس کے مخصوص فوائد ہی سامنے آ سکے ہیں۔ البتہ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہوگا۔
محققین نے جو نئی دوا ایجاد کی ہے اس کو ’لیکنمیب‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جو کہ ایک اینٹی باڈی تھیراپی کی طرح کام کرتی ہے۔ اس دوا سے دماغ کے اندر پیدا ہونے والے پروٹین کے اس جھنڈ کو ختم کیا جاتا ہے جن کو ’بیٹا ایملوئڈ‘ کہا جاتا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ بیٹا ایملوئڈ الزائمر کی تیزی میں کتنا کردار ادا کرتے ہیں البتہ وہ افراد جو الزائمر سے متاثر ہوں ان کے دماغ کے سیلز بہت تیزی سے اس سے تباہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کی بائیو ٹیک کمپنی ’بائیو جن‘ اور جاپان کےفارماسوٹیکل ادارے ’آئی سائی‘ نےرواں برس ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے لگ بھگ 1800 مریضوں پرلیکنمیب کے کلینکل ٹرائل کیے ہیں۔ البتہ محققین کو ان ٹرائلز کے مکمل اعداد و شمار کا انتظار تھا۔ یہ اعداد و شمار منگل کو سامنے آ گئے ہیں جو کہ ’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘ میں شائع ہوئے ہیں۔
ان اعداد و شمار سے واضح ہو رہا ہے کہ 18 ماہ کے دوران مریضوں کی دماغی صلاحیت کی کمی میں 27 فی صد کمی آئی جن کو معمولی لیکن انتہائی اہم نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں ڈیمینشیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر نِک فاکس کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ الزائمر کے مرض میں تبدیلی کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔
اس نئے آغاز سے قبل کئی بار ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا جب کہ یہاں تک پہنچے کے لیے دو دہائیوں سے زائد وقت میں بے شمار لوگوں کی شدید محنت بھی لگی۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں اس وقت ڈیمینشیا سے لگ بھگ پانچ کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہیں جب کہ اس تعداد کے دو تہائی کے برابر تین کروڑ لوگوں کو الزائمر کا سامنا ہے۔
SEE ALSO: دماغ کو برقی جھٹکے دینے سے معمر افراد کی یادداشت میں بہتری لانا ممکن: تحقیقبرطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی یہ اموات کی ایک بڑی وجہ قرار دی جاتی ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ الزائمر میں مبتلا افراد کی موت مرض کی تشخیص کے سات برس کے اندر ہو جاتی ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس یہ تحقیق بھی سامنے آئی ہے کہ خون کے ایک ٹیسٹ کی بدولت دماغی مرض الزائمر کی درست تشخیص ممکن ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق نئے ٹیسٹ سے تشخیص آسان، سستی اور وسیع پیمانے پر ممکن ہوگی۔ اس ٹیسٹ سے معلوم ہو سکے گا کہ بھولنے کی بیماری میں مبتلا افراد کو الزائمر ہے یا وہ کسی اور مسئلے کا شکار ہیں۔ یہ ٹیسٹ بیماری لاحق ہونے سے 20 سال پہلے ان علامات کو شناخت کرسکے گا جو بعد میں اس کا سبب بنتی ہیں۔
سائنسی جریدے ’جاما‘ میں جولائی میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے مطابق ماہرین کو توقع ہے کہ نیا ٹیسٹ دو سے تین سال میں کلینکل استعمال کے لیے دستیاب ہو جائے گا اور اس سے ان لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا جن میں الزائمر کی علامات نہیں لیکن وہ مستقبل میں اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔