ڈرائیو ان سینما بینی کسی زمانے میں متعارف ہوئی تھی مگر جلد ہی متروک ہو گئی، لیکن اب کرونا وائرس کے ماحول میں اس کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ نیویارک میں کئی ڈرائیو ان سینما کھل گئے ہیں اور وہاں فلم بینوں کا رش ہے۔ لگتا ہے ڈرائیو ان سینما آج کے پر آشوب دور کے لیے ہی بنا تھا۔
کرونا وائرس نے پوری دنیا کے طور طریقے بدل دیے مگر تفریح کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ سو جاری احتیاطوں کی پابندی کرتے ہوئے بھی تفریح ممکن بنایا جا رہاہے، خاص طور سے فلم بینی کو، کیوں کہ اس کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔
کرونا وائرس کی بنیادی احتیاط کی پابندی نے سینما کے کاروبار کو تقریباً بند کر دیا تھا ۔ مگر کاروباری لوگوں نے اس میں سے بھی رستے نکال لیے۔
بہت عرصہ پہلے ایسے سینما گھر بنے تھے، جہاں لوگ اپنے خاندان اور دوستوں کے ہمراہ گاڑی میں جاتے تھے اور وہیں سے بڑی سکرین پر سینما دیکھتے اور خوش خوش گھر لوٹ جاتے۔ مگر جلد ہی لوگ اس سے اکتا گئے اور یہ کاروبار دم توڑ گیا۔ مگر آج اس کی ضرورت پھر تازہ ہو گئی۔ لگتا ہے ڈرائیو ان سینما آج کے پر آشوب دور کے لیے ہی بنا تھا۔
نیویارک کے مرکزی علاقے مین ہٹن سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر ایک اسی طرح کا سینما گھر واروک ڈرائیو ان ہے۔ اسے پندرہ مئی کو کھولنے کی اجازت ملی تھی۔ جیسے ہی یہ سینما کھلا، لوگوں کا اژدہام امڈ آیا۔
اس کی مالک بیتھ ولسن کا کہنا ہے کہ اس کے ایڈوانس ٹکٹ لمحوں میں بک جاتے ہیں۔
مہینوں سے گھروں قید امریکیوں کو باہر نکل کر تفریح کا ایک موقع ہاتھ آیا اور وہ بے تابی سے اس کی طرف بھاگے۔ گھر میں چھوٹے سکرین پر فلمیں اور شوز دیکھ دیکھ کر وہ تنگ آ چکے تھے۔ سو یہ موقع غنیمت جانا۔
ولسن کا کہنا ہے کہ سینما بین گھر سے نکلنا چاہتے تھے۔ ڈرائیو ان سینما نے نہ صرف ان کو تفریح کا موقع فراہم کیا بلکہ وہ اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں سے گپ بھی لڑاتے ہیں۔ اور یوں ڈرائیو ان سینما لوگوں کے لیے میل ملاپ کا خوشگوار وسیلہ بھی بن گیا۔
ولسن کہتے ہیں لوگوں کو خوش دیکھ کر مجھے بھی بڑی خوشی ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ڈرائیو ان سینما کرونا وائرس کی عالمگیر وبا کو سامنے رکھ کر سوچا گیا تھا۔ گھر سے باہر نکل کر یہ بہت دشوار ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے سماجی فاصلے کو قائم رکھا جائے، مگر یہاں منتظمین کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑا، لوگ جب اپنی گاڑیوں میں ہوتے ہیں تو فاصلہ خود بخود قائم ہو جاتا ہے۔
نیویارک کے ایک اور علاقے میں ایمنیا ڈرائیو ان سینما ہے، یہاں پارکنگ کا ایسا بندوبست کیا گیا ہے کہ گاڑیوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ قائم رہے۔ یہاں بھی لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ میموریل ڈے کی طویل چھٹیوں کے دنوں کے لیے سارے ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں۔
اس سینما گھر کے ایک مالک کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں ہمارے سینما کا رخ کر رہے ہیں۔ لوگ اب کسی نہ کسی طرح گھر سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔
سینما مالک کا خیال ہے کہ ڈرائیو ان سینما کی صنعت ایک بار پھر پھلے پھولے گی۔ عشروں پہلے ہمارا کاروبار نوے فی صد ٹھپ ہو چکا تھا۔ سینما کے ساتھ ہمارا ایک ریستوران بھی ہے اور اب وہ بھی خوب چلے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان سے نہ صرف امریکہ کے مختلف شہروں بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی پوچھا جا رہا ہے کہ ڈرائیو ان سینما کو کس طرح کھولا اور چلایاجا سکتا ہے۔
نیویارک سٹی کے کوئینز علاقے کے بیل ائیر ڈنر کے مالکان اپنے پارکنگ لاٹ میں ایک بڑی سکرین لگانے کا سوچ رہے ہیں۔ جہاں وہ سینما کے سات ڈنر بھی پیش کریں گے۔ ان کا ارادہ ہے کہ یہاں وہ امریکی کلاسیکل فلمیں دکھائیں گے۔
لوگ تفریح کے ان خطوط پر اور بھی بہت کچھ سوچ رہے ہیں کہ کس طرح سماجی فاصلے کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اپنا کروبار چلایا جائے۔ میموریل ڈے کے بعد چار جولائی کو امریکہ کا یوم آزادی ہے۔ اس کو منانے کی تیاری بھی شروع ہو گئی ہے۔
غرض کرونا وائرس سے ایک طرف سائنس دان اور سیاست دان نمٹ رہے ہیں تو دوسری طرف کاروباری لوگ بھی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کرونا وائرس نے تفریحی کاروبار پر شدید وار کیا ہے اور یہ شعبہ اب ایک نئے انداز سے لوگوں کو تفریح مہیا کرے گا اور اپنے کاروبار کو قائم اور منافع بخش بنائے گا۔ انہیں اندازہ ہے کرونا وائرس کے خلاف جنگ طویل ہو سکتی ہے۔