چارسدہ واقعہ: تھانہ مندنی پر حملے کے الزام میں 30 افراد کے خلاف مقدمہ درج

سیکڑوں افراد نے تھانہ مندنی پر دھاوا بول کر اسے نذرِ آتش کر دیا تھا۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وسطی ضلع چارسدہ میں قرآن کی بے حرمتی کے مبینہ واقعے اور اس کے ردِ عمل میں پولیس تھانے کو آگ لگانے کے بعد علاقے میں کشیدہ صورتِ حال بدستور برقرار ہے۔

پولیس نے تحصیل تنگی کے علاقے مندنی میں پولیس تھانے اور وہاں موجود گاڑیوں کو آگ لگانے کے الزام میں 30 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

یاد رہے کہ سوموار کی صبح ایک ہزار سے زائد افراد نے جلوس کی شکل میں تھانے کی حدود میں ریلی نکالی اور وہ قرآن کی مبینہ بے حرمتی کرنے والے شخص کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اپریل 2017 میں ایک ایسے ہی واقعے کے بعد مشتعل ہجوم نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے ایک طالب علم مشال خان کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر توہین آمیز پوسٹس شیئر کرنے پر یونیورسٹی کے احاطے میں ہی ہلاک کر دیا تھا۔

چار سدرہ واقعہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب حال ہی میں امریکہ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں میں پاکستان کا نام برقرار رکھا ہے۔ پاکستان نے اس رپورٹ کو زمینی حقائق کے خلاف قرار دیا تھا۔

SEE ALSO: چارسدہ: قرآن کی مبینہ بے حرمتی کرنے والا ملزم گرفتار، مشتعل ہجوم نے تھانے کو آگ لگا دی

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مندنی سے تعلق رکھنے والے عارف خان نے بتایا کہ اتوار کو ایک شخص کو مسجد کے احاطے میں قرآن کو مبینہ طور پر جلاتے ہوئے پکڑا گیا جس کے بعد امام مسجد کے کہنے پر مقامی افراد نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔

عارف خان کے مطابق جب یہ اطلاع پورے علاقے میں پھیلی تو شام کے وقت مشتعل افراد نے تھانے کا گھیراؤ کیا اور پولیس سے مبینہ ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ اس دوران مشتعل افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ملزم کی حوالگی سے انکار پر مشتعل ہجوم نے تھانے پر چڑھائی کرتے ہوئے اسے نذر آتش کرنا شروع کیا۔

اس واقعے میں تھانے کی عمارت کے ساتھ ساتھ قریب واقع ایس ایچ او کا گھر بھی شعلوں کی لپیٹ میں آکر راکھ ہوگیا جب کہ 32 گاڑیاں بشمول تین موبائل وین بھی خاکستر ہوگئیں۔

عینی شاہدین کے مطابق جلی ہوئی اشیا میں پولیس یونیفارم، فرنیچر اور پولیس اہلکاروں کے بکسوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

SEE ALSO: مشال خان قتل کیس: مرکزی ملزم کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

تحصیل تنگی کے رہائشی شعیب خان کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جس شخص نے قرآن کو نزرآتش کیا وہ غیر مقامی تھا۔ اور اس کا دماغی توازن بھی درست نہیں تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مقامی افراد کو اس واقعے کی پاداش میں تھانے کو نہیں جلانا چاہیے تھا کیونکہ اس شخص نے ایک قرآن کو نزرآتش کیا جبکہ تھانے کو آگ لگانے کی صورت میں تقریبا دس قرآن نزر آتش ہوئے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا سزائے موت ہے۔ تاہم ماضی میں کئی ایسے کیسز بھی سامنے آ چکے ہیں جس میں اس قانون کا غلط استعمال دیکھنے میں آیا۔

اگر ایسے ملزم پر عدالت میں الزامات ثابت نہ ہوں تب بھی ایسے شخص کی زندگی خطرے سے خالی نہیں رہتی۔

توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی حق دار ٹھیرائے جانے والی آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا تھا۔

پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی پر الزام تھا کہ سال 2009 میں ان کا چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے دوران مبینہ طور پر انہوں نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے۔