افغان عوام لڑائی بند کرنے کے خواہاں ہیں: خلیل زاد

فائل

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان، زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے وہ دوحہ پہنچ چکے ہیں۔ جمعرات کے روز ایک ٹوئیٹ میں، خلیل زاد نے کہا کہ (بدھ کے روز کے) افتتاحی اجلاس میں انھوں نے طالبان پر زور دیا کہ ’’افغان عوام، جو آپ ہی کے بھائی بہن ہیں، اس بات کے خواہاں ہیں کہ لڑائی بند ہو‘‘۔

نمائندہ خصوصی نے کہا کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ ہتھیار ڈال دیے جائیں، تشدد کی کارروائیاں بند ہوں اور امن کا قیام عمل میں لایا جائے‘‘۔

ایک اور ٹوئیٹ میں، اُنھوں نے کہا ہے کہ امن کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے منسلک چار معاملات پر یکساں سوچ پیدا کریں۔ یہ معاملات ہیں: فوج کا انخلا، انسداد دہشت گردی سے متعلق یقین دہانیاں، بین الافغان مکالمہ اور مذاکرات اور مربوط جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے تشدد کی کارروائیوں میں کمی۔

خلیل زاد کے بقول، ’’تب تک کوئی بات حتمی نہیں ہوگی، جب تک ہم ان چار مسائل پر متفق نہیں ہو جاتے‘‘۔

اس سے قبل موصول ہونے والی خبر میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ وہ کابل حکومت سے بات نہیں کریں گے، تاہم وہ طالبان مخالف افغانوں سے اس وقت بات چیت کر سکتے ہیں جب امریکہ اور طالبان کے درمیان کوئی امن سمجھوتہ طے پا جائے۔

طالبان ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کا یہ بیان امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان نمائندوں کے درمیان دوحا میں بدھ کو مذاکرات کے ایک اور دور شروع ہونے کے موقع پر سامنے آیا ہے۔

ذبیع اللہ مجاہد نے ترک نیوز چینل ‘ٹی آر ٹی ورلڈ’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان اپنے مخالف افغانوں سے اس وقت بات کر سکتے ہیں جب امریکہ کے ساتھ ان کا کوئی معاہدہ طے پا جا ئے گا۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ افغان حکومت سے بات نہیں کریں گے کیونکہ ان کے بقول ‘‘وہ ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے جسے امریکہ نے قائم کیا تھا اور جس پر بیرونی اثر و رسوخ ہے۔’’

تاہم انہوں نے کہا کہ وہ ان افغانوں سے بات چیت کرنے کے خواہاں ہیں جو حکومت میں شامل نہیں ہیں۔

اگرچہ طالبان کے ترجمان کے حالیہ بیان پر تاحال افغان حکومت کا ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم کابل کا موقف رہا ہے کہ افغانستان کی حکومت آئین کے تحت ملک کی قانونی اور منتخب حکومت ہے جو تمام افغانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

دوسری طرف افغانستان کے دارالحکومت کابل میں حکومت کی میزبانی میں افغان قومی لویہ جرگہ کے اجلاس کے شرکا نے افغان متحارب فریقوں کے درمیان جنگ بندی کی تجویز دیتے ہوئے طالبان کے ساتھ بات چیت اور امن مذکرات میں آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سلامتی امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا موقف اپنی جگہ، لیکن ان کے بقول امریکہ کو یہ بات کسی طور قبول نہیں ہو گی کہ وہ افغان حکومت کی شرکت کے بغیر طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ کر لے۔

" اگر طالبان کی یہ شرط ہے کہ وہ افغان حکومت سے بالکل بات نہیں کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ امریکہ سے معاہدہ کر کے وہ اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں اور پھر یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ کابل حکومت سے بات کریں۔ "

طلعت مسعود کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ کبھی بھی طالبان سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کرے گا جب تک طالبان کابل حکومت سے مذاکرات اور جنگ بندی پر تیار نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر افغان تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرنا ہے تو طالبان کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ’’

افغان عہدیداروں نے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحا میں شروع ہونے والی بات چیت کے تازہ دور کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کا موقف رہا ہے کہ کابل انتظامیہ کی امن مذاکرات میں شرکت کے بغیر طے پانے والا کوئی بھی امن سمجھوتہ انہیں قبول نہیں ہو گا۔

طالبان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی بردار سے بدھ کو ووحا میں ملاقات کی ہے، تاہم طالبان نے بیان میں یہ واضح کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت میں کابل حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہو گا۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں مارچ کے مذاکرات میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا اور افغانستان کی سرزمین کے دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کے معاملے پر دونوں فریقوں نے اتفاق کیا تھا تاہم امریکہ طالبان پر جنگ بندی اور افغان حکومت سے بات چیت کے لیے زور دے رہا ہے۔ طالبان یہ دونوں مطالبات تاحال قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔