پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سرکردہ رہنماؤں کے اتوار کو ہونے والے ایک جرگے کے دوران ان علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ صوبہ بنانے یا خیبر پختونخواہ میں انھیں ضم کرنے سے متعلق اختلافات برقرار رہے۔
ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی ایک تجویز میں قبائلی علاقوں کو ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں شامل کرنے کا کہا گیا تھا لیکن قبائلی رہنماؤں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پشاور میں ہونے والے جرگے کے دوران بعض رہنما ان علاقوں پر مشتمل نئے صوبے کے قیام کے مخالف تھے جب کہ بعض نے اس تجویز پر عملدرآمد کے لیے قانون سازوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں کی رائے کو فوقیت دیں۔
جرگے میں شامل ایک قبائلی رہنما منظور آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخواہ میں شامل کرنے کی حمایت کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا۔
"فاٹا کے لوگ اور صوبے کے لوگ یہ ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں فاٹا کے لوگ یہاں کی یونیورسٹیاں اور کالج استعمال کرتے ہیں، فاٹا کے لوگوں اور صوبے کے لوگوں کی ثقافت اور شناخت ایک ہے۔ انگریز سامراج نے اپنے مفادات کے لیے انھیں دو ٹکڑے کیا تھا اب وقت آ گیا ہے کہ فاٹا اس صوبے میں شامل ہو جائے۔"
لیکن جرگے میں شامل ایک اور رہنما ملک خان مرجان وزیر کہتے ہیں کہ اس معاملے میں جلد بازی کی بجائے مزید افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔
"اس وقت تک جب تک قبائل اپنے گھروں میں نہ ہوں اصلاحات کا عمل میرے خیال میں بے جا ہے۔ جب ہم گھروں کو جائیں عوام اپنے علاقوں میں ہوں تو پھر اصلاحات پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں پھر اس وقت قبائلی خطے کے بزرگوں کے ساتھ جرگہ کر کے جو بھی فیصلے کر لیں کہ یا وہ بندوبستی علاقے میں ضم ہونا چاہتے ہیں یا علیحدہ تشخص چاہتے ہیں۔"
شمال مغرب میں واقع سات قبائلی ایجنسیاں انتظامی طور پر خیبر پختونخواہ کے گورنر کے ماتحت ہیں اور گورنر وفاق کے آئینی نمائندے کے طور یہاں کے معاملات دیکھتا ہے۔
قبائلی علاقوں میں پاکستان کا آئین و قانون لاگو نہیں ہوتا اور یہاں برطانوی نو آبادیات کے زمانے کا قانون "ایف سی آر" ہی رائج ہے۔
قبائلیوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ انھیں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ یہاں کے لوگ خود کو قومی دھارے کا حصہ تصور کریں۔