خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور سے ملحقہ علاقے ریگی للمہ کے لوگ سراپا احتجاج ہیں کہ ان کی زرعی زمینوں پر ان کی مرضی کے بغیر ڈیفینس ہاوسنگ اٹھارٹی پشاور کی تعمیرات قائم کی جا رہی ہیں۔
ریگی للمہ کی اس زرعی زمین پر اورکزئی قبائل اور ریگی للمہ کے رہائشیوں کے درمیان چار دہائیوں سے ملکیت کا تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ اس دشمنی میں دونوں فریقوں کے کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ریگی قومی اتحاد کے سرپرست حماد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرکاری کاغذات میں یہ زمین اورکزئی قبائل کی ملکیت ہے۔ لیکن، 80 سال سے زائد عرصے سے اس پر ریگی للمہ کے رہائشیوں کا قبضہ ہے۔ اس تنازعے کے حل کے لیے 2006 میں اس وقت کی صوبائی اسمبلی کے ممبر وقار چمکنی نے دونوں قبائل کے مابین راضی نامہ کرایا جس کی رو سے اورکزئی اور ریگی للمہ اس اراضی کے برابر شراکت دار قرار پائے۔ لیکن پھر ہوا یوں کہ ڈی ایچ اے نے اپنی رہائشی اسکیم کے لیے اورکزئی قبائل سے یہ زمین خرید لی اور ریگی للمہ کے رہائشیوں کو اس سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈی ایچ اے کو بیچی گئی یہ اراضی زرعی زمین ہے اور ریگی للمہ کے زیادہ تر افراد کی گزر بسر اسی زمین پر کاشکاری سے جڑا ہے۔
ڈی ایچ اے نے 2009 میں پشاور ڈی ایچ اے ایکٹ کے تحت ریگی للمہ کی زمین کو خریدنا شروع کیا۔ لیکن خرید و فروخت کا یہ طریقہ کار مبینہ طور پر غیر شفاف تھا کیونکہ اس معاملے میں تمام فریقوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
حماد خان کے مطابق "کچھ مفاد پرست لوگوں نے قبائل سے مشورہ کئے بغیر متشرکہ ملکیت کی اس اراضی میں سے ساڑھے سات سو ایکڑ زمین ڈی ایچ اے کو بیچ دی۔"
للمہ ریگی اتحاد کے مطابق فروخت جانے والی اصل زمین کی اصل پیمائش ایک ہزار ایکڑ سے بھی زیادہ ہے جو کہ 9 ارب روپے میں بیچی گئی۔ لیکن نہ تو انتظامیہ، نہ اورکزئی قبائل اور نہ ہی ڈی ایچ اے یہ بتا رہا ہے کہ زمین کا سودا کتنی رقم میں ہوا۔
متاثرین یہ احتجاج کر رہے ہیں کہ برابر کے مالک ہونے کے ناطے انہیں برابر کی رقم دی جائے اور تمام تر معلومات تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اپنی زمین کا جائز معاوضہ حاصل کر سکیں۔
ریگی قومی اتحاد کے صدر حاجی سمین جان نے کہا کہ "یہ زمینیں ہمارے بچوں اور مال مویشیوں کا رزق ہے، ہم اس کی فروخت کے خلاف ہیں۔ ہمیں ہماری زمینیں واپس چاہئیں۔"
سمین جان نے کہا کہ پولیس والے آئے، ان کے ساتھ فوج کی گاڑیاں بھی تھیں، انہوں نے زبردستی ہمیں ہماری زمینوں سے بے دخل کیا، ہم پر تشدد کیا اور ہمارے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، یہاں تک کہ کھڑی فصلوں کو ضائع کر کے وہاں موجود جھونپڑیوں کو بھی جلا دیا گیا۔ حماد خان نے مزید کہا کہ ہمارے خلاف دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ریگی للمہ سے صوبائی اسمبلی کے ممبر محمود جان کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے ایک جرگہ بنایا ہے۔ لیکن یہ جرگہ ڈی ایچ اے کو دی گئی زمین کے لیے نہیں، بلکہ اورکزئی اور ریگی للمہ کے درمیان تنازعے کے حل کے لئے بنایا گیا ہے۔ جس میں متعلقہ قبائل کے علاوہ علاقے کے ایس پی شفیع اللہ گنڈا پور اور ڈی ایس پی رحیم اللہ بھی شامل ہیں۔ جبکہ جرگے میں ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کا کوئی نمائندہ موجود نہیں۔
اب تک اس جرگے کے پشاور پولیس لائن میں دو اجلاس ہو چکے ہیں مگر تاحال خریدی گئی زمین کی پیمائش اور رقم کی اصل معلومات دوسرے فریق کی طرف سے مہیا نہیں کی گئیں ہیں اور نہ ہی ڈی ایچ اے نے ان زمینیوں کی خرید کا کوئی ریکارڈ ریگی للمہ کے متاثرین کو دکھایا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اس معاملے پر اورکزئی قبیلے کے نمائندے نثار خان اورکزئی سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔
وی او اے نے ڈی ایچ اے سے بھی موقف لینے کی کوشش لیکن اس میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔