"رینجرز کی کاروائیوں میں ملزمان پکڑے جاتے ہیں، لیکن مناسب کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف تلاشی لینے اور گرفتاری کے محدود اختیارات ہیں"، ڈی جی رینجرز سندھ کی صحافیوں سے گفتگو
کراچی —
سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل رضوان اختر نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے رینجرز کو اضافی اختیارات تو دیے ہیں لیکن یہ اختیارات کاغذ کے ایک ٹکڑے زیادہ نہیں۔
یہ بات انہوں نے بدھ کو کراچی میں 'کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر' کی افتتاحی تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں کراچی بد امنی کیس کا ازخود نوٹس لیا گیا تھا جس کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے رینجرز کو اضافی اختیارات دئےگئے تھے لیکن یہ اختیارات کاغذکے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔
ڈی جی رینجرز کا مزید کہنا تھا کہ رینجرز کی کاروائیوں میں ملزمان پکڑے جاتے ہیں، لیکن مناسب کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں۔
ان کے بقول، "ہمارے پاس صرف تلاشی لینے اور گرفتاری کے محدود اختیارات ہیں، ملزمان کی گرفتاری کے بعد انھیں پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کے خلاف گواہوں کو بھی تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔
ڈی جی رینجرز سندھ کا کہنا تھا کہ اگر لاہور پاکستان کا دل ہے تو کراچی اس ملک کی شہ رگ ہے۔ اس شہر میں اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود بھی یہاں زندگی موجود ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ صرف لیاری ایسا علاقہ نہیں جہاں مسائل ہوں، شہر کے اور بھی علاقے ہیں جہاں لیاری سے مختلف حالات نہیں ہیں۔ رینجرز کئی برسوں سے کراچی میں موجود ہے اور شہر میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے
ڈی جی رینجرز نے مزید کہا کہ کراچی میں امن کیلئے چاہے فوج کو بلالیں، لیکن قیامِ امن کیلئے پہلے نظام درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کےبقول اگر تمام ادارے مربوط طریقے سے کام کریں تو شہر کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں کراچی اور پاکستان کو مستحکم رکھنا ہے تو پھر یہاں کی کاروباری برادری کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا۔
ڈی جی رینجرز کے مطابق صوبہ سندھ میں 22 ہزار رینجرز اہلکار تعینات ہیں، جبکہ کراچی شہر میں رینجرز کے 14 ونگز ہیں جن میں سے ہر ونگ میں 555 اہلکار موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رینجرز سندھ میں اپنی اسطاعت سے زیادہ کام کررہی ہے۔
یہ بات انہوں نے بدھ کو کراچی میں 'کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر' کی افتتاحی تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں کراچی بد امنی کیس کا ازخود نوٹس لیا گیا تھا جس کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے رینجرز کو اضافی اختیارات دئےگئے تھے لیکن یہ اختیارات کاغذکے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔
ڈی جی رینجرز کا مزید کہنا تھا کہ رینجرز کی کاروائیوں میں ملزمان پکڑے جاتے ہیں، لیکن مناسب کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں۔
ان کے بقول، "ہمارے پاس صرف تلاشی لینے اور گرفتاری کے محدود اختیارات ہیں، ملزمان کی گرفتاری کے بعد انھیں پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کے خلاف گواہوں کو بھی تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔
ڈی جی رینجرز سندھ کا کہنا تھا کہ اگر لاہور پاکستان کا دل ہے تو کراچی اس ملک کی شہ رگ ہے۔ اس شہر میں اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود بھی یہاں زندگی موجود ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ صرف لیاری ایسا علاقہ نہیں جہاں مسائل ہوں، شہر کے اور بھی علاقے ہیں جہاں لیاری سے مختلف حالات نہیں ہیں۔ رینجرز کئی برسوں سے کراچی میں موجود ہے اور شہر میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے
ڈی جی رینجرز نے مزید کہا کہ کراچی میں امن کیلئے چاہے فوج کو بلالیں، لیکن قیامِ امن کیلئے پہلے نظام درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کےبقول اگر تمام ادارے مربوط طریقے سے کام کریں تو شہر کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں کراچی اور پاکستان کو مستحکم رکھنا ہے تو پھر یہاں کی کاروباری برادری کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا۔
ڈی جی رینجرز کے مطابق صوبہ سندھ میں 22 ہزار رینجرز اہلکار تعینات ہیں، جبکہ کراچی شہر میں رینجرز کے 14 ونگز ہیں جن میں سے ہر ونگ میں 555 اہلکار موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رینجرز سندھ میں اپنی اسطاعت سے زیادہ کام کررہی ہے۔