|
کراچی -- پاکستان میں اس وقت کئی جگہوں پر شہریوں کو گھروں کے کرائے سے زیادہ بجلی کے بل موصول ہو رہے ہیں اور ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث حکومت پر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
صرف ایک ماہ میں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ پانچ روپے 89 پیسے کا مزید اضافہ کیا گیا ہے۔
بظاہر اس تنقید سے بچنے کے لیے برسرِ اقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بجلی کے بلوں میں دو ماہ کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔
اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بجلی کے شعبے میں نقصان کے باعث بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ روکنے کے لیے کئی اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن اس شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے شعبے میں سبسڈیز یعنی رعایتیں دینا کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔
لیکن مختلف سیاسی جماعتیں بالخصوص متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، جماعتِ اسلامی اور دوسرے صوبوں کے شہری بھی اپنے لیے اسی قسم کے ریلیف پیکج کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔
سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس قسم کا ریلیف صرف پنجاب کی حد تک ہی کیوں دیا جا رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چیمبر آف کامرس نے مطالبہ کیا ہے کہ بجلی بلوں میں ریلیف سندھ کی عوام اور تاجر برادری کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے۔
اعلامیے میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ ملکی معیشت میں کراچی کے کردار کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ میں بھی جلد از جلد بجلی کے بلوں میں ریلیف دے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
'سبسڈیز بجلی کی پیداواری لاگت کم کرنے کا علاج نہیں'
ماہرین کی رائے ان مطالبات اور حکومتی اقدامات سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سبسڈیز ملک کے توانائی کے شعبے میں موجود گڑبڑ کو ختم کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتی اور سبسڈیز سے صرف وقتی ریلیف ہی میسر آ سکے گا۔
کراچی میں قائم تھنک ٹینک سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر میں پرنسپل اکانومسٹ ڈاکٹر محمد صابر کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کے اس اقدام سے بجلی کی پیداوار سستی نہیں ہو گی۔
اُن کے بقول یہ سردست تو عوام کو وقتی ریلیف فراہم کرنے کی کوشش ہے اور اس کا اصل مقصد سیاسی فوائد کا حصول نظر آتا ہے۔
محمد صابر کا کہنا تھا کہ وہ کھپت بڑھانے والی سبسڈیز کے حق میں بالکل نہیں کیوں کہ بجلی کے شعبے کے اکثر مسائل سبسڈیز دیے جانے ہی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اصل میں اس اعلان سے بجلی کی پیداواری لاگت کم نہیں ہو رہی بلکہ ٹیکس دینے والے شہریوں کا پیسہ سبسڈیز یعنی رعایتیں دینے کی جانب موڑا گیا ہے۔
اُن کے بقول بجلی کے شعبے کے مسائل اس وقت حل ہوں گے جب توانائی کی پیداوار پر آنے والے خرچے کو کم کیا جائے گا۔ اس لیے سبسڈیز اس مسئلے کا حل نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ پریشانی بڑھانے والی بات ہے۔
لیکن محمد صابر کے مطابق اس ریلیف پیکیج سے ایسے صارفین کو ضرور وقتی فائدہ پہنچ سکتا ہے جنہیں لائف لائن صارفین کہا جاتا ہے۔ لائف لائن صارفین ایسے صارفین کو کہا جاتا ہے جن کا بجلی کا خرچہ انتہائی کم ہوتا ہے اور ان کا ماہانا بل 100 یونٹس تک ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ رعایت صرف دو ماہ کے لیے ہے اور چوں کہ اگست اور ستمبر کے بعد بجلی کی کھپت کم ہو جائے گی تو پھر بل بھی کم ہوجائیں گے۔ حالاں کہ ایسے رعایتی پیکج جون اور جولائی کی شدید گرمیوں میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتے۔
'بجلی کے شعبے میں تنظیمِ نو کی ضرورت ہے'
سینئر ماہر اقتصادیات اور عوامی پالیسی کے ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب کا بھی کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں میں رعایت سے قیمتیں تو کم ہوں گی۔ لیکن اس کے ساتھ بجلی کے شعبے کے مسائل حل کرنے کے لیے اس شعبے کی تنظیمِ نو لازم ہے۔
اُن کے بقول اس شعبے میں اصلاحات لائے بغیر صورتِ حال تبدیل نہیں کی جا سکتی اور دو ماہ بعد ہم دوبارہ اسی مسئلے میں پھر سے موجود ہوں گے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق اس وقت بلوں میں سبسڈی دینے کا مقصد کم آمدن یعنی لوئر مڈل کلاس کو بلوں کی ادائیگی میں مدد فراہم کرنا ہے۔ کیوں کہ تمام جائزے اور سرویز بتا رہے ہیں کہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کو بالخصوص بجلی کے بلوں میں کافی مشکلات آ رہی ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ سمجھنے کی بات یہی ہے کہ دو ماہ کے لیے 14 روپے کی چھوٹ دینے سے کیا فرق پڑے گا؟ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس عرصے میں اصلاحات ہو سکتی ہیں۔
اُن کے بقول بجلی کے بلوں پر نافذ ٹیکسز، قرضوں کی ادائیگی کے لیے لگایا گیا سرچارج، آئی پی پیز کے مسائل، کارآمد پلانٹس کو گیس کی فراہمی نہ ہونے جیسے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کیا ایسا ریلیف دیگر صوبوں کے شہریوں کو بھی مل سکتا ہے؟
ڈاکٹر محمد صابر نے مزید کہا کہ اگر دیگر صوبوں کے عوام بھی ایسے مطالبات کرتے ہیں تو اس مطالبے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ بجلی کی قیمت کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بجی بنانے والے بجلی گھروں یعنی آئی پی پیز کے کیپیسٹی چارجز کم کیے جائیں۔
اس کے ساتھ کئی علاقوں میں ناکارہ پلانٹس چلا کر مہنگی بجلی حاصل کی جا رہی ہے اور اس کا اثر پورے ملک کے عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اس عمل سے اس پلانٹ سے بجلی حاصل کرنے والوں کو حکومت سبسڈی دے کر اس مسئلے کو وہیں حل کر سکتی ہے۔ لیکن پورے ملک پر اس کو تقسیم کر کے بجلی کے بلوں میں ڈالنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ملک کا توانائی کا شعبہ ایک بہت زیادہ ابتری کا شکار ہے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق ہر صوبہ اپنی مالیاتی پوزیشن کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس کے پاس اس قسم کا ریلیف دینے کی کس قدر گنجائش ہے۔
پنجاب نے یہ رقم اپنے ترقیاتی بجٹ کم کر کے اس جانب خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر کوئی اور صوبہ بھی یہ کرنا چاہے تو صوبے اس پر فیصلہ سازی کے لیے آزاد ہیں۔
خاقان نجیب کے مطابق چوں کہ بجلی کے شعبے میں سبسڈی کے لیے فراہم کی گئی یہ رقم پنجاب کے ترقیاتی بجٹ سے فراہم کی جائے گی، اس سے صوبے کی معاشی شرح نمو پر اثر ضرور پڑے گا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ حکومتی عہدیداران نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے حکام کو اس امدادی پیکج پر آمادہ کر لیا ہو گا اور انہیں اس کی ضرورت کا احساس دلوایا ہوگا۔
لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس بجلی کے رعایتی پیکج اور آئی ایم ایف کو اس پر آمادہ کرنے سے بڑھ کر بجلی کے شعبے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔
بعض معاشی ماہرین کے خیال میں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو وسائل کی تقسیم میں سب سے بڑا حصہ صوبہ پنجاب ہی کو ملتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں کو کم کر کے باآسانی یہاں رقم خرچ کرسکتا ہے۔
لیکن سندھ کے علاوہ دیگر دو صوبوں کی مالی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ ایسے میں معاشی ماہرین اس مسئلے کے حل کے لیے نمائشی اقدامات کے بجائے دیرپا اقدامات اٹھانے پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔
ان کے خیال میں اس وقت قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کو زیادہ سے زیادہ ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور وفاقی سطح پر بجلی بنانے والے کارخانوں سے معاہدوں پر نظرِ ثانی اور حکومتی ٹیکسز کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ریلیف پیکج میں کیا ہے؟
ریلیف پیکج کی بدولت بجلی کے صارفین کی بجلی کی فی یونٹ قیمت 14 روپے کم ہو جائے گی۔ تاہم یہ ریلیف پیکج صرف صوبہ پنجاب کے لیے مخصوص ہے اور اس کا فائدہ صرف ان صارفین کو ریلیف فراہم کرے گا جو بجلی کے بلز کے غیر محفوظ زمرے یعنی ان پروٹیکٹڈ صارفین کہلاتے ہیں اور ان کا استعمال 200 سے 500 یونٹس ماہانہ کے درمیان ہونا چاہیے۔
پیکج کا اعلان کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم جن کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی موجود تھیں کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے اس ریلیف پیکیج کے لیے 45 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی ہے اور یہ رقم صوبے کی حکومت نے ترقیاتی بجٹ کم کر کے اور کئی شعبوں میں اپنے اخراجات گھٹا کر نکالے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں بجلی کے شعبے میں ہونے والے نقصانات اور گردشی قرضہ 2600 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور ہر ماہ اس میں اربوں روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مجموعی رقم ملک کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے جسے معاشی ماہرین ملک کی سلامتی کے مسئلے سے تعبیر کر رہے ہیں۔